1۔ایک آدمی نے ایک عورت کو بلاحائل شہوت کے ساتھ ہاتھ لگایا ،جب کہ دونوں بالغ تھے اور اس آدمی کو انزال بھی نہیں ہوا،اس عورت کی ایک بیٹی ہے،اب وہ آدمی اس عورت کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے،جب کہ وہ عورت جس کو شہوت کے ساتھ ہاتھ لگایا تھا وہ فوت ہوچکی ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ ؛ اس آدمی کا اس مرحومہ کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے یانہیں؟
نوٹ: امام صاحب کے نز دیک حرمت مصاہرت زنا اور دواعی زنا سے ثابت ہوتی ہے،اس لیے کہ دواعی زنا مفضی الی الزنا ہے اور زنا مفضی الی الولد ہے اور حرمت مصاہر ت میں سبب ولد ہے نہ کہ زنا،پس جب سبب ولد ہے نہ کہ زنا تو مذکورہ صورت میں صرف ہاتھ لگایا ہے ،زنااور ولد کی نوبت نہیں آئی ہیں،کیوں کہ عورت اس کے بعد مرگئی ہے، تو اب اس عورت کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنا کیساہے؟
2۔ایک آدمی نے یہ کہاتھا کہ اگر میرا نکاح فلاں لڑکی کے علاوہ کسی اور سے ہواتو وہ میری بہن ہوگی ،اب اس کا نکاح کسی اور لڑکی سے ہوگیا تو اب یہ نکاح صحیح ہوگیا یا نہیں؟
واضح رہے کہ کسی خاتون سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجانے کے بعد اس خاتون کی وفات ہوجانے کی صورت میں حرمت مصاہرت مرتفع نہیں ہوتی،خواہ حرمت مصاہرت کےبعد زناکا تحقق ہواہو یانہ ہوا ہو،لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون کو شہوت کے ساتھ چھونے کی وجہ سے اس خاتون کی تمام بیٹیاں مذکورہ شخص پر حرام ہوگئی تھیں،پس مذکورہ خاتون کی وفات کی وجہ سے ثابت شدہ حرمت مصاہرت مرتفع نہیں ہوگی، لہذا مذکورہ شخص کے لیے مرحومہ خاتون کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا۔
2۔جس شخص نے یہ کہاتھا کہ” اگر میرا نکاح فلاں لڑکی کے علاوہ کسی اور سے ہوا،تو وہ میری بہن ہوگی“ اس بات کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں ہوگا،لہذا مذکورہ خاتون کے علاوہ کسی اور سے نکاح ہونے کی صورت میں مذکورہ الفاظ کی وجہ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں ہوگا،نکاح بدستور قائم رہے گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وتثبت حرمة المصاهرة بالنكاح الصحيح دون الفاسد، كذا في محيط السرخسي. فلو تزوجها نكاحا فاسدا لا تحرم عليه أمها بمجرد العقد بل بالوطء هكذا في البحر الرائق. وتثبت بالوطء حلالا كان أو عن شبهة أو زنا، كذا في فتاوى قاضي خان. فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني وأجداده وإن علوا وأبنائه وإن سفلوا، كذا في فتح القدير ... وكما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة، كذا في الذخيرة. سواء كان بنكاح أو ملك أو فجور عندنا، كذا في الملتقط. قال أصحابنا: الربيبة وغيرها في ذلك سواء هكذا في الذخيرة. والمباشرة عن شهوة بمنزلة القبلة وكذا المعانقة وهكذا في فتاوى قاضي خان. وكذا لو عضها بشهوة هكذا في الخلاصة. فإن نظرت المرأة إلى ذكر الرجل أو لمسته بشهوة أو قبلته بشهوة تعلقت به حرمت المصاهرة، كذا في الجوهرة النيرة. ولا تثبت بالنظر إلى سائر الأعضاء إلا بشهوة ولا بمس سائر الأعضاء لا عن شهوة بلا خلاف، كذا في البدائع. والمعتبر النظر إلى الفرج الداخل هكذا في الهداية. وعليه الفتوى هكذا في الظهيرية وجواهر الأخلاطي. قالوا: لو نظر إلى فرجها وهي قائمة لا تثبت حرمة المصاهرة، وإنما يقع النظر في الداخل إذا كانت قاعدة متكئة، كذا في فتاوى قاضي خان ... ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك وإن كان رقيقا بحيث تصل حرارة الممسوس إلى يده تثبت، كذا في الذخيرة. وكذا لو مس أسفل الخف إلا إذا كان منعلا لا يجد لين القدم، كذا في فتاوى قاضي خان."
(کتاب النکاح، الباب الثالث، القسم الثاني، ج:1، ص:374، 375، ط: رشيدية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: مصاهرةً) كفروع نسائه المدخول بهن، وإن نزلن، وأمهات الزوجات وجداتهن بعقد صحيح، وإن علون، وإن لم يدخل بالزوجات وتحرم موطوءات آبائه وأجداده، وإن علوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح، وموطوءات أبنائه وآباء أولاده، وإن سفلوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح فتح، وكذا المقبلات أو الملموسات بشهوة لأصوله أو فروعه أو من قبل أو لمس أصولهن أو فروعهن."
(کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ج: 3، ص: 28،ط: دارالفکر)
المحیط البرہانی میں ہے:
"وعن محمّد رحمه الله إذا قال: أنت مثل أمّي يريد به التحريم، فهو ظهار وإن لم يكن له نيّة فهو باطل، وفرق بين هذا وبينما إذا قال لها: أنتِ عليّ مثل أمّي.
وعنه أيضاً: إذا قال لها أنتِ أمّي يريد الطلاق فهو باطل؛ لأنّه كذب، وكذلك إذا قال لها: إن فعلت كذا فأنتِ أمّي يريد به التحريم ثمَّ يفعل ذلك وهو باطل."
(كتاب الطلاق، الفصل الثالث والعشرون، ج: 3، ص: 430، ط: دارالكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"و يكره قوله: أنت أمي و يا ابنتي و يا أختي و نحوه.
(قوله: و يكره الخ ) جزم بالكراهة تبعاً للبحر و النهر، و الذي في الفتح: و في أنت أمي لايكون مظاهراً، وينبغي أن يكون مكروهاً، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته: يا أخية مكروه، وفيه حديث رواه أبو داود أن رسول الله سمع رجلاً يقول لامرأته: يا أخية، فكره ذلك ونهى عنه، ومعنى النهي قربه من لفظ التشبيه، ولولا هذا الحديث لأمكن أن يقول: هو ظهار؛ لأن التشبيه في أنت أمي أقوى منه مع ذكر الأداة، و لفظ يا أخية استعارة بلاشك، وهي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليعين ظهاراً حيث لم يبين فيه حكماً سوى الكراهة والنهي، فعلم أنه لا بد في كونه ظهاراً من التصريح بأداة التشبيه شرعاً، ومثله أن يقول لها: يا بنتي أو يا أختي ونحوه."
(كتاب الطلاق، باب الظهار، ج: 3، ص: 470، ط: دار الفكر)
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:
"زید نے کہاتھا کہ اگر میں اپنی بہن دیگر اس کے تبادلہ میں اپنا بیاہ کروں تو گویا اپنی بہن سے بیاہ کروں، اب زید اپنی بہن کا رشتہ دے کر اس کے تبادلہ میں ایک عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے، شرعاً کیا حکم ہے؟
جواب: زید کے اس کہنے سے کچھ نہیں ہوتا، نکاح دونوں درست ہوں گے۔"
(کتاب النکاح، ج: 7، ص: 193، ط: دار الاشاعت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144606100735
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن