بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

داوٗد فیملی تکافل شرعی اصولوں کے خلاف ہے


سوال

کیا داوٗد  فیملی  تکافل شرعی اصولوں کے مطابق ہے یا نہیں؟ اور اس میں پیسے دے کر منافع    حاصل کرنا  جائز ہے یا نہیں؟ تفصیل کے ساتھ جواب دیں!

جواب

واضح رہے کہ  تکافل  جہاں جہاں شرعی محرمات پر مشتمل ہے وہاں  قابل مذمت کردار  اور   غریب کی استحصال  کو بھی  متضمن  ہے ،مروجہ تکافل  میں سود ، جوا ، دھوکا  دہی اور استحصالی عنصر جیسی خرابیاں موجود  ہیں۔

تکافل میں حصہ لینے والا شخص  کمپنی کو جو رقم ادا کرتا ہے ، کمپنی حسب معاہدہ وہ رقم بمعہ اضافہ کے لوٹاتی ہے، یہ اضافہ بعینہ سود  ہے جو کہ شرعًا حرام ہے۔بعض صورتوں میں حصہ دار کو  معاہدہ پورا ہونے پر کچھ بھی واپس نہیں ملتا،  یا اداکردہ رقم بمعہ اضافہ کے مل جاتی ہے ، یہ معاہدہ ان دو صوتوں میں   متردد ہوتا ہے، ان میں سے کوئی ایک صورت بھی یقینی نہیں ہوتی  ، یہ   جوا اور قمار ہے جو کہ جائز نہیں ۔

اس کے علاوہ دھوکا  دہی، استحصالی عنصر جیسی   خرابیاں بھی پائی جاتی ہے ، لہذاجمہور علمائے  کرام  کے نزدیک  کسی بھی قسم     کی بیمہ  (انشورنس  )پایسی سود اور قمار(جوا) کا مرکب ومجموعہ ہونے کی وجہ سے  ناجائز  اور حرام ہے ، اور مروجہ انشورنس  کے متبادل  کے طور پر  بعض ادارے  جو "تکافل  " (خیراتی ادارے) کے عنوان سے  نظام چلا رہے ہیں  یہ بھی شرعی اعتبار سے خامیاں پائے جانے کی وجہ سے ناجائز ہے؛   لہذا "داؤد فیملی تکافل"  اور موجودہ  دور میں اس جیسی جتنی دیگرکمپنیاں کام کررہی   ہیں ، ان کی   پایسیاں  لینے اور ان میں  رقم جمع کرانے سے اجتناب لازم ہے، اور اس کا نفع حرام ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"الغرر هو الخطر الذي استوى فيه طرف الوجود و العدم بمنزلة الشك."

(فصل فی شرائط  الصحۃ فی البیوع/ج:11/ص:186/ط:بیروت)

شرح  صحیح البخاری لابن بطال میں ہے:

"(و توعد تعالى من لم يتب منه بمحاربة الله ورسوله وليس فى جميع المعاصى ما عقوبتها محاربة الله ورسوله غير الربا، فحق على كل مؤمن أن يجتنبه ، و لايتعرض لما لا طاقة له به من محاربة الله ورسوله ، ألا ترى فهم عائشة هذا المعنى حيث قالت للمرأة التى قالت لها : بعت من زيد من أرقم جارية إلى العطاء بثمانمائة درهم ، ثم ابتعتها منه بستمائة درهم نقدًا ، فقالت لها عائشة : بئس ما شريت ، أبلغى زيدًا أنه قد أبطل جهاده مع رسول الله إن لم يتب . ولم تقل لها : إنه أبطل صلاته ولا صيامه ولا حجه ، فمعنى ذلك - والله أعلم - أن من جاهد فى سبيل الله فقد حارب عن الله ، ومن فعل ذلك ثم استباح الربا ، فقد استحق محاربة الله."

(کتاب البیوع/ج:6/ص:219/ط:مکتبۃ الرشد السعودیہ)

الاختیار میں ہے:

"قوله عليه الصلاة والسلام :  كل قرض جر منفعة فهو ربا. "

(کتاب البیوع/ج:2/ص:34/ط:دارالکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201036

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں