میرے والد صاحب نے میرے چھوٹے بھائی کو 7 لاکھ روپے دئیے تھے،تو میں نے ابو سے کہا ،مجھے بھی پیسے دے دیں،اس بات کو 27 سال گزر گئے،والد صاحب نے7 لاکھ جمع کئے اور کمیٹی بھی نکلی،لیکن والد صاحب پر قرض چڑھ گیا،سارے پیسے اس قرض میں چلے گئے،والد صاحب نے دوبارہ کمیٹی ڈالی اور مجھ سے کہاکہ میں 40 لاکھ آپ کو دوں گا،پھر والد صاحب نے مجھ سے کہاکہ میں اب مدرسہ بنارہا ہوں، اس کے بعد آپ کو پیسے دوں گا،لیکن والد صاحب نے اب تک مجھے نہیں دئیےاور والد صاحب کا انتقال ہوگیا،کیا یہ میرا حصہ بنتا ہے؟
واضح رہے کہ ہبہ(گفٹ) کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہبہ شدہ چیز جس کو ہبہ کیا جارہا ہو،اس کو قبضہ وتصرف میں دے دیا جائے،اگر صرف زبانی کہا اور قبضہ نہیں دیا،تو یہ چیز ہبہ(گفٹ) شمار نہیں ہوگی۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد صاحب نے سائل کو کہا تھا کہ میں دوں گا اور وفات تک نہیں دیا،تو سائل کا والد صاحب کی میراث میں ان پیسوں کو الگ سے لینا کاحق نہیں ہے،کیوں کہ صرف زبان سے کہہ دینا کہ ”دوں گا“ اس سے ملکیت ثابت نہیں ہوتی،جب تک اس پر مکمل قبضہ وتصرف نہ دیا جائے، والد صاحب کی میراث میں تمام ورثاء اپنےشرعی حصوں کے بقدر حق دار ہیں،سائل میراث سے یہ رقم الگ سے نہیں لے سکتا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط. "
(کتاب الھبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ج: 4، ص: 377، ط: دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."
(كتاب الهبة، 690/5، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102463
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن