اگر کسی علاقہ میں مسلمان دین پر عمل نہ کر سکے تو کیا وہ علاقہ چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے کی طرف ہجرت کر سکتا ہے ؟
واضح رہے کہ اگر کسی خطے/ علاقہ / ملک میں وہاں کے مسلمانوں کےلیے وہاں کے ظالم و جابر حکمران اور رعایا کی وجہ سے دین پر عمل کرنا مشکل ہو جائے اور احکامِ شرعیہ آزادی کے ساتھ نہ کیے جاسکتے ہوں، تو جو مسلمان سفر کرنے پر قادر ہوں، ان کے لیے ترکِ وطن کرکے کسی اسلامی مملکت میں چلےجانا ضروری ہے، البتہ جس کسی کو سفر پر قدرت نہ ہو یا کوئی ایسی جگہ میسر نہ ہو، جہاں آسانی سے دین پر عمل کرسکے تو وہ شخص معذور ہے۔
فتح الباری میں ہے:
"وفقه هذا الحديث أن الإقامة بمكة كانت حراما على من هاجر منها قبل الفتح لكن أبيح لمن قصدها منهم بحج أو عمرة أن يقيم بعد قضاء نسكه ثلاثة أيام لا يزيد عليها ولهذا رثى النبي صلى الله عليه وسلم لسعد بن خولة أن مات بمكة ويستنبط من ذلك أن إقامة ثلاثة أيام لا تخرج صاحبها عن حكم المسافر وفي كلام الداودي اختصاص ذلك بالمهاجرين الأولين ولا معنى لتقييده بالأولين قال النووي معنى هذا الحديث أن الذين هاجروا يحرم عليهم استيطان مكة وحكى عياض أنه قول الجمهور قال وأجازه لهم جماعة يعني بعد الفتح فحملوا هذا القول على الزمن الذي كانت الهجرة المذكورة واجبة فيه قال واتفق الجميع على أن الهجرة قبل الفتح كانت واجبة عليهم وأن سكنى المدينة كان واجبا لنصرة النبي صلى الله عليه وسلم ومواساته بالنفس وأما غير المهاجرين فيجوز له سكنى أي بلد أراد سواء مكة وغيرها بالاتفاق انتهى كلام القاضي."
(کتاب مناقب الانصار، باب إقامة المهاجر بمكة بعد قضاء نسكه، ج:7، ص 267، ط: دار المعرفة)
فتاوی رحیمیہ میں ہے:
"اس زمانہ میں بھی جہاں کفار کا زور ہے اور حکامِ شرعیہ آزادی کے ساتھ نہ کیے جاسکتے ہوں، تو ترکِ وطن کرکے کسی اسلامی مملکت میں چلےجانا ضروری ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں جب تک مکہ فتح نہ ہوا تھا اور وہاں کفار کا زور تھا، اس جگہ سے ہجرت ضروری تھی اور اس کے لیے تاکید بھی کی گئی، چناچہ صحابہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے آئے تھے، لیکن جب مکہ فتح ہوا، تو حکم ہوا کہ اب ہجرت کی ضرورت نہیں، حسنِ نیت اور جہاد چاہیے۔"
(متفرقات حظر والاباحۃ، ج: 10، ص: 233، ط: دار الاشاعت)
معارف القرآن (مفتی شفیع صاحب) میں ہے:
"جس شہر یا ملک میں انسان کو اپنے دین پر قائم رہنے کی آزدی نہ ہو ، وہ کفر وشرک یا احکام شرعیہ کی خلاف ورزی پر مجبور ہو وہاں سے ہجرت کرکے کسی دوسرے شہر یا ملک میں جہاں دین پر عمل کی آزادی ہو، چلے جانا بشرطے کہ قدرت ہو واجب ہے، البتہ جس کو سفر پر قدرت نہ ہو یا کوئی ایسی جگہ میسر نہ ہو جہاں آزادی سے دین پر عمل کرسکے، وہ شرعاً معذور ہے۔"
(ج: 6، ص: 711، ط: ادارہ معارف القرآن)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101159
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن