ميں جمعہ كی نماز ميں اكثر يہ دعاپڑہتاہوں "اللهم انصر من نصر دين محمد صلی الله عليہ وسلم واخذل من خذل دين محمد صلی الله عليہ وسلم"گزشتہ روز کسی نے پرچہ بھیجا کہ اس دعامیں "نصر دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم"محل اشکال ہےاور اس پر تین دلائل بھی پیش کئےمثلاً: ورأيت الناس يدخلون في دين الله افواجا"اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" میں اللہ تعالی کا دین تم لوگوں تک پہنچایا"اسی طرح ایک قبیلے کی عورت نے چوری کی ،تو لوگوں نے اسے معاف کرنے کی سفارش کی ، پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"کہ تم لوگ اللہ کی دین میں سفارش کرتے ہوں "ان تینوں جگہوں میں دین کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کی گئی ہے،اب سوال یہ ہے کہ
1:کیا مذکورہ دعاکہیں ثابت ہے؟
2:مذکورہ بالادعامانگناکیساہے؟
3:اگردرست ہے تومذکورہ بالادلائل کا کیاجواب ہے؟نیز کیا اللہ کے بجائے دین کی نسبت کسی اور کی طرف کرنادرست ہے؟
1:مذکورہ دعاان الفاظ کے ساتھ ماثورنہیں ہے، البتہ معجم طبرانی میں الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یہی دعا مذکورہ ہے مثلاًیہاں لفظِ"دین "کے بجائے "علیا"کا تذکرہ ہے۔
جیساکہ معجم طبرانی کی روایت ہے:
"حدثنا أحمد بن عمرو القطراني، ثنا الحسن بن مدرك، ثنا عبد العزيز بن عبد الله القرشي، ثنا سعيد بن أبي عروبة، عن القاسم بن عبد الغفار، عن عمرو بن شراحيل قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:اللهم انصر عليا، اللهم أكرم من أكرم عليا، اللهم اخذل من خذل عليا رضي الله عنه ."
(ج:17،ص:39،ط:مکتبہ ابنِ تیمیۃ)
علامہ ابنِ حجرالعسقلانی نے"الاصابۃ فی تمیز الصحابہۃ"میں مذکورہ روایت پر کلام کرتے ہوئے فرمایاہے:
"وسنده واه"
(الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ،ج:4،ص:535،ط:دارالکتب العلمیۃ)
2:مذکورہ دعا میں لفظی ومعنوی اعتبارسے کوئی قباحت نہیں ہے، لہذا اسے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ ماثورسمجھ کرنہیں پرھنا چاہیے۔
3:دین اللہ تعالی کی اطاعت اور ان کی طرف انقیاد اور بندگی کا نام ہے، اسی لیےدین کی نسبت اللہ تعالی کی طرف نسبت ہوتی ہے، اور اسی دین کو اللہ تبارک وتعالی نے اپنے پاک پیغبروں کے واسطے امت تک پہنچایاہے،تو اس لحاظ سے دین کا تعلق پیغمبروں کے ساتھ بھی ہوتاہے،اور اسی دین پر چل کر زندگی گزارنااور اللہ تعالی کی اطاعت اوربندگی کو اپنا شیوہ بنانا نوعِ انسانی کا مقصدِ اصلی ہے،اس لحاظ سے دین کی نسبت عام انسانون کی طرف ہوتی ہے،یہی وجہ سے ہے کہ قرآن وسنت ،کتبِ احادیث اور تفاسیرمیں لفظِ دین کی نسبت اللہ تعالی کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عام انسانوں کی طرف بکثرت ہوتی ہے،جیساکہ سوال میں ذکرکردہ آیت اور آحادیث میں دین کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کی گئی ہے، جب کہ دیگر مقامات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی منسوب ہے،مثلاً:
قرآن کریم میں اللہ تبارک تعالی کا ارشادِ گرامی ہے:
"لَكُمْ دِیْنُكُمْ وَ لِیَ دِیْنِ".(سورۃ الکافرون ،آیت نمبر:6)
ترجمہ:تم کو تمہارابدلہ ملےگااور مجھ کو میرابدلہ ملے گا(ماخوذ ازبیان القرآن)
مذکورہ آیتِ کریمہ میں لفظِ دین کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔
اسی طرح قرآن پا ک میں ارشادِ باری تعالی ہے:
" اليوم يئس الذين كفروا من دينكم فلا تخشوهم واخشون اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا فمن اضطر في مخمصة غير متجانف لإثم فإن الله غفور رحيم ."
(سورت المائدہ ،آیت نمبر:3)
ترجمہ :آج کے دن ناامید ہوگئے کافرلوگ تمہارے دین سے سوان سے مت ڈرنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا،آج کے دن تمہارے لیے تمہارے دین کو میں نے کامل کردیا اور میں تم پر اپناانعام تمام کردیااور میں نے اسلام کو تمہارادین بننے کے لیے پسندکرلیا۔(ماخوذ ازبیان القرآن )
اسی طرح انسان کے مرنے کے بعدقبر میں ملائک ان سے سوالات کریں گے جن میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ آپ کا دین کیا ہے؟ جس کا جواب مؤمن یہی دے گا کہ میرادین اسلام ہے،مثلاً :
مشكاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن البراء بن عازب، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ((يأتيه ملكان فيجلسانه، فيقولون له: من ربك؟ فيقول: ربي الله. فيقولون له: ما دينك؟ فيقول: ديني الإسلام۔۔۔الحدیث"
(باب اثبات عذاب القبر،ج:2،ص:595،ط:مكتبة نزار مصطفى الباز)
مذکورہ بالاآیت اور حدیث مبارک میں دین کی نسبت عام انسانوں کی طرف کی گئی ہے۔
مذکورہ بالاآیات اور حدیث مبارک سے معلوم ہواکہ دین کی نسبت کرنااللہ ،رسول اور تمام انسانوں کی طرف درست ہے، لہذا مذکورہ شخص کا یہ کہنا کہ "دین کی نسبت اللہ تعالی کے علاوہ غیرکی طرف نہیں کرنی چاہیے"درست نہیں ہے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144403101788
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن