ایسے ناولز جو دینی باتوں پر مشتمل ہوں بلکہ معاشرے کی چھپی خرابیاں بھی اس میں واضح کی جائیں اور ساتھ ازدواجی زندگی کی تھوڑی محبت کی باتیں بھی ہوں لیکن ناول کا اہم مضمون دین داری پر ہی ہو تو کیا ایسے ناولز غیر شادی شدہ پڑھ سکتے ہیں؟
صورت مسئولہ میں ایسے ناولز جس میں دین کی باتیں ہو ں اور اس کو پڑھ کر ذہن مثبت سوچ ،اور مثبت کردار ، اور مثبت اخلاق کی طرف متوجہ ہو تو ایسے ناولز پڑھے جاسکتے ہیں ، البتہ اس میں اتنی مشغولیت اور دلچسپی نہ لی جائے کہ اصل ذمہ داریوں یعنی عبادات اور والدین کی خدمت سے ہی غافل ہو جائیں تو اس صورت میں پڑھنا جائز نہیں ہوگا ۔
قرآن پاک میں ہے:
"وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ ." [ لقمان : 6 ]
ترجمہ:" اور بعض آ دمی ایسا ( بھی ) ہے جو ان باتوں کا خرید ار بنتا ہے جو اللہ سے غافل کر نے والے ہیں تا کہ اللہ کی یاد سے بے سمجھے گمراہ کرے اور ہنسی اڑائے ایسے لو گو ں کےلیے ذلت کا عذاب ہے ۔"
(بیان القرآن ، سورۃ لقمان ، 145/3،ط: ،مکتبہ رحمانیہ)
فتاوی شامی میں ہے:
"وحديث "حدثوا عن بني إسرائيل" يفيد حل سماع الأعاجيب والغرائب من كل ما لا يتيقن كذبه بقصد الفرجة لا الحجة بل وما يتيقن كذبه لكن بقصد ضرب الأمثال والمواعظ وتعليم نحو الشجاعة على ألسنة آدميين أو حيوانات ذكره ابن حجر۔۔(قوله بقصد الفرجة لا الحجة) الفرجة مثلثة التفصي عن الهم والحجة بالضم البرهان قاموس (قوله لكن بقصد ضرب الأمثال إلخ) وذلك كمقامات الحريري، فإن الظاهر أن الحكايات التي فيها عن الحارث بن همام والسروجي لا أصل لها، وإنما أتى بها على هذا السياق العجيب لما لا يخفى على من يطالعها."
(كتاب الحظر و الإباحة ، فصل في البيع، ج: 6، ص: 405، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506100629
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن