بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیمنشیا (بھولنے کی بیماری ) میں جائیداد کو اولاد کا اپنی حفاظت میں لینا


سوال

میرے والد کی عمر 79 سال ہے اور وہ گزشتہ تقریباً دو سالوں سے ڈیمنشیا یعنی بھولنے کے مرض میں مبتلا ہیں،  گزارش یہ ہے کہ ان کے کچھ بینک اکاؤنٹس بیرون ملک ہیں ، اور اس میں رقوم موجود ہے، لیکن اس بھولنے کی بیماری کی وجہ سے وہ نا ان بینکوں کے معاملات کو سمجھ پا رہے ہیں نہ ہی ان کا حساب کتاب رکھ پارہے ہیں جس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ کہیں ان سے کوئی بڑی غفلت نہ ہو جائے جس سے بڑے نقصان کا اندیشہ بھی ہے۔ میرے والد کے تین بچے ہیں، ایک بیٹی اور دو بیٹے،  کیونکہ میرے والد کا یہ پیسہ باہر اب غیر محفوظ ہے اور ہم سارے بچے یہ سمجھتے ہیں کہ ان پیسوں کو ان غیرملکی بینکوں سے پاکستان لانا چاہئے، تاکہ اس کو محفوظ کیا جاسکے،  کیوں کہ میرے والد کو شدید بھولنے کی بیماری ہے، تو اس صورتحال میں:

1. میرے والد کے اس مال یعنی بینک بیلنس کو ہم تینوں بہن بھائی اپنی حفاظت میں برابری سے لے سکتے ہیں؟

2۔ اور چوں کہ میرے والد کو اس بھولنے کی بیماری کی وجہ سے اب نہ اپنے بینک اکاؤنٹس کا کچھ پتا ہے ، اور نہ ہی ان کو یہ سمجھ ہے کہ ان میں کتنی رقوم موجود ہے،  اور اس کا کرنا کیا ہے، تو اس صورتحال میں اس مال کا اولاد کے لئے کیا حکم ہے، کیا وہ اسے استعمال کرسکتی ہے؟

جواب

انسان جب تک زندہ ہوتا ہے اس وقت تک وہ   اپنی تمام مملوکہ چیزوں میں شرعاً ہر قسم کاجائز تصرف کر سکتاہے ،کسی اور کو اس کی مملوکہ چیزوں میں  کسی قسم کاتصرف کرنے کا شرعاً کوئی حق حاصل نہیں ہوتا ، البتہ اگر مالک اپنی مملوکہ چیزوں میں تصرف کرنے کی کسی کو اجازت دے دے تو وہ اجازت کے مطابق تصرف کر سکتا ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں 1۔اگر سائل کا والد  اگر اولاد کو مال اپنی حفاظت میں لینے کی اجازت دے دے ،  تو اولادمال کو  اپنی حفاظت میں لے سکتی ہے ،  اگر اجازت نہ دے تو بغیر اجازت کے  اولاد کو اپنی حفاظت میں لینے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

2۔اگر چہ سائل کے  والد کو ڈیمنشیا کی وجہ اکاؤنٹس کا علم نہ ہو ،  لیکن بینک اور اکاؤنٹ ہولڈر کے پاس سارا ڈیٹا تحریری طور پر موجود ہوتا ہے،  جس کی وجہ سے صرف اکاؤنٹ ہولڈر کے بھولنے کی وجہ سے اس کے اکاؤنٹ سے رقم ضائع نہیں ہو سکتی ، محض مذکورہ وجہ سے اولاد کو مال میں والد کی اجازت کے بغیر کسی قسم کا تصرف کرنے کاکوئی  حق حاصل نہیں ہے ۔ 

البتہ واقعتاً رقم ضائع ہونے  کا قوی امکان ہو  تو پھر اس صورت میں اولاد کو مال كي  حفاظت کی خاطر اپنی ملکیت میں لینے کی شرعاً اجازت ہے  ، اس کو پنی حفاظت میں لے لیں ، اور ضرورت کے مطابق والد کی ضروریات کی خاطر اسےاستعمال کرسکتےہیں ، جب تک والد حیات ہیں توکسی اور کو والد کی اجازت کےبغیر اپنی ذاتی ضروریات میں استعمال کرنے كي اجازت نهيں هے      ۔

فتاویٰ شامی میں ہے :

"لا يجوز لأحد من ‌المسلمين ‌أخذ ‌مال ‌أحد ‌بغير ‌سبب ‌شرعي."

(كتاب الحدود ، ‌‌باب التعزير ، ج : 4 ، ص : 61 ، ط : سعيد كراچي)

وفيهاايضا :

"لا يجوز التصرف في مال غيره ‌بلا ‌إذنه ‌ولا ‌ولايته إلا في مسائل مذكورة في الأشباه."

(كتاب الغصب ، ج : 6 ، ص :200)

البحر الرائق میں ہے :

"وقال في منح الغفار في شرح قوله ‌كل ‌تصرف ‌صدر ‌منه، وله مجيز حال وقوعه انعقد موقوفا من بيع أو نكاح أو طلاق أو هبة، وكذا كل ما صح به التوكيل كما صرح به الكمال في شرح الهداية."

(كتاب البيع ، ‌‌باب الاستحقاق ، ‌‌فصل في بيع الفضولي ، ج : 6 ، ص : 164 ، ط : دار الكتاب الإسلامي)

الدر المختار شرح تنویر الابصار وجامع البحار میں ہے :

"(‌كل ‌تصرف ‌صدر ‌منه) تمليكا كان كبيع وتزويج، أو إسقاطا كطلاق وإعتاق (وله مجيز) أي لهذا التصرف من يقدر على إجازته (حال وقوعه انعقد موقوفا) وما لا مجيز له حالة العقد لا ينعقد أصلا."

(كتاب البيوع ، ‌‌باب البيع الفاسد ، ص : 420 ، ط :دار الكتب العلمية)

دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے :

"لأن ‌للإنسان ‌أن ‌يتصرف ‌في ‌ملكه ‌الخاص كما يشاء وليس لأحد أن يمنعه عن ذلك ما لم ينشأ عن تصرفه ضرر بين لغيره."

(الكتاب الثاني الإجارة ، الباب الرابع في بيان المسائل التي تتعلق بمدة الإجارة ، ج : 1 ، ص : 559 ، ط :دار الجيل)

وفيها ايضا :

"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير."

(‌‌الكتاب العاشر الشركات ، ‌‌الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالحيطان والجيران ، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك ، ج : 3 ، ص :201)

کشف الاسرار عن اصول فخر الاسلام البزدوی میں ہے :

"واختلفوا في وجوب النظر للسفيه فقال أبو حنيفة رحمه الله لما كان السفه مكابرة وتركا لما هو الواجب عن علم ومعرفة لم يجز أن يكون سببا للنظر۔۔۔ وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله النظر واجب حقا للمسلمين وحقا له لدينه لا لسفهه، ألا ترى أن العفو عن صاحب الكبيرة حسن في الدنيا والآخرة وإن أصر عليها وقاساه بمنع المال وقال أبو حنيفة رحمه الله النظر من هذا الوجه جائز لا واجب ۔۔۔ وإنما يجب أن ينظر إلى ما فيه نظر له أبدا فلا يلحق بالصبى خاصة ولا بالمريض ولا بالمكره لكن يجب إثبات النظر بأي أصل أمكن اعتباره على ما هو مذكور في المبسوط.

قوله (واختلفوا في وجوب النظر للسفيه) بجعله محجورا عن التصرفات وإثبات الولاية للغير على ماله صونا لماله عن الضياع كما وجب للصبي والمجنون فقال أبو حنيفة رحمه الله لا يجوز الحجر عليه عن التصرفات۔۔۔ وقال أبو يوسف ومحمد والشافعي رحمهم الله يجوز الحجر عليه بهذا السبب عن التصرفات المحتملة للفسخ وهي ما يبطله الهزل دون ما لا يبطله كالنكاح والطلاق ونحوهما إلا أن أبا يوسف ومحمدا رحمهما الله قالا إن الحجر عليه على سبيل النظر له۔۔۔احتج أبو يوسف ومحمد رحمهما الله بقوله تعالى {فإن كان الذي عليه الحق سفيها أو ضعيفا أو لا يستطيع أن يمل هو فليملل وليه بالعدل} [البقرة: 282] نص على إثبات الولاية على السفيه وذلك لا يتصور إلا بعد الحجر عليه وبما روي أن عبد الله بن جعفر رضي الله عنهما كان يفني ماله في اتخاذ الضيافات۔۔۔فثبت أنهم كانوا يرون الحجر بسبب التبذير وبأن السفيه مبذر في ماله فيحجر عليه نظرا له كالصبي بل أولى؛ لأن الصبي إنما يحجر عليه لتوهم التبذير وهو متحقق هاهنا فلأن يكون محجورا عليه كان أولى وكان هذا الحجر بطريق النظر واجبا حقا للمسلمين فإن أبا بكر الجصاص رحمه الله كان يقول ضرر السفه يعود إلى الكافة فإنه لما أفنى ماله بالسفه والتبذير صار وبالا على الناس وعيالا عليهم يستحق النفقة من بيت المال والحجر على الحر لدفع الضرر عن العامة مشروع بالإجماع كما في المفتي لما جن والطبيب الجاهل والمكاري المفلس وحقا لدينه لا لسفه؛ لأنه وإن كان عاصيا لسفه فهو مستحق النظر باعتبار أصل دينه فإنه بالنظر إلى أصل دينه حبيب الله تعالى ولهذا لو مات يصلى عليه وكذا كل فاسق حقا لإسلامه والدليل عليه الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر فإنهما شرعا بطريق النظر للمأمور والمنهي حقا لدينه وللمسلمين.۔۔۔قوله (وقال أبو حنيفة رحمه الله) يعني في الجواب عن كلامهما أن النظر من هذا الوجه وهو أنه مستحق للنظر بعد الجناية جائز لا واجب۔۔،قوله (وإنما يجب أن ينظر إلى ما فيه نظر له أبدا) يعني لا يجعل السفيه عندهما كالهازل في جميع التصرفات ولا كالصبي ولا كالمريض بل المعتبر في حقه توفير النظر عليه؛ لأن الحجر ثبت لمعنى النظر له فبحسبه يلحق ببعض هذه الأصول."

(‌‌باب العوارض المكتسبة ، ‌‌فصل الهزل من العوارض المكتسبة ، السفه من العوارض المكتسب ، ج : 4 ، ص : 371/72/73 ، ط : شركة الصحافة العثمانية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں