1۔رمضان المبارک کے روزے کا اعلان دیارِ عرب اور قریبی ملک افغانستان میں ہوا، لیکن ہمارے ملک میں چاند کا اعلان نہیں ہوا تو کیا کوئی شخص یا کچھ لوگ ان کے اعلان پر یہاں پاکستان میں روزہ رکھ سکتے ہیں ؟
2۔یا کچھ لوگوں نے یہاں پاکستان میں چاند دیکھ کر گواہی دی تو کیا ان کی گواہی پر روزہ رکھنا جائز ہے ؟
کیا پورے علاقے میں ایک آدمی چاند دیکھے اور علاقے والے اس کی گواہی رد کردیں تو کیا اس آدمی پر روزہ رکھنا فرض ہے ؟پورے شہر والوں کا روزہ نہ ہو اور شہر میں ایک علاقے میں کوئی ایک آدمی روزہ رکھ سکتا ہے ؟مثلاً کراچی والوں کا روزہ نہیں اور سہراب گوٹھ میں ایک آدمی روزہ رکھ سکتا ہے ؟اسی طرح اگر پاکستان میں روزہ ہو اور دیگر مسلم ممالک میں عید ہو تو یہ لوگ عید کرسکتے ہیں ؟
1۔عصرِ حاضر کے تمام مسلم ممالک میں چاند کی رؤیت کے لیے باقاعدہ رؤیتِ ہلال کمیٹیاں موجود ہیں، جو باقاعدہ چاند دیکھ کر رمضان اور عید وغیرہ کا اعلان کرتی ہیں،اور ہر مسلم ملک کی رؤیت ہلال کمیٹی قاضئ شرعی کی حیثیت رکھتی ہے، اور شہادت موصول ہونے پر اگر وہ اعلان کردے تو اس ملک کی حدود اور ولایت میں رہنے والے جن لوگوں تک یہ اعلان یقینی اور معتبر ذرائع سے پہنچ جائے ، ان پر شرعا ًاس فیصلے کے مطابق عمل کرنالازم ہے ، لہذا پاکستان کے باشندوں پر اپنے ملک کی مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلہ کی پاس داری کرنا لازم ہے ، پاکستان میں رہتے ہوئے روزہ اور عید کے لیے افغانستان یا دیگر کسی مسلم ملک کی رؤیت ہلال کمیٹی کا اعتبار کرنا درست نہیں ہے۔
2۔ جب ملک پاکستان میں رؤیت ہلال کے لیے ملکی اور صوبائی سطح پر کمیٹیاں قائم ہیں تو ان کے علاوہ چند افراد کا ذاتی طور پر چاند کا اعلان کرنا غیر مجاز ، پرائیویٹ کمیٹیوں کا اعلان اور فیصلہ دوسرے لوگوں کے لیے قابل عمل نہیں ہے، اس لیے ان کو ولایت عامہ حاصل نہیں ہے، اور ان کا اعلان عام لوگوں کے لیے حجت نہیں ہے۔
البتہ کسی ایک فرد نے یا چند افراد نے از خود چاند دیکھا تو ایسے افراد کے لیے اپنی ذات کی حد تک اس پر عمل کرنا لازم ہوگا۔اس لیے کہ اگر کسی شخص نے خود چاند دیکھا ہو اور اس کی گواہی بھی دی ہو، لیکن کسی بنا پر اس کی گوہی قبول نہ کی گئی ہو تو اپنی ذات کی حد تک وہ شخص احتیاط کا دامن تھامتے ہوئے عمل کرے گا، چنانچہ اگر رمضان کا چاند ہو تو وہ خود روزہ رکھے گا اگرچہ کمیٹی کی طرف سے اعلان نہ ہوا ہو، البتہ عید کے چاند کی صورت میں وہ احتیاط پر عمل کرتے ہوئے روزہ رکھے اور تمام لوگوں کے ساتھ ہی عید کرے۔ یہی حکم اس شخص کا ہے جو کسی شہر میں رہ رہا ہواور متعلقہ کمیٹی کی جانب سے چاند کا اعلان نہ ہوا ہو اور اس شخص نے خود چاند دیکھا ہوتو روزہ رکھ سکتا ہے ، تاہم اگر اس نے چاند نہیں دیکھا تو محض اپنی رائے یا کسی اور ملک کی رؤیت کی بنا پر روزہ رکھنا جائز نہ ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(واختلاف المطالع) ورؤيته نهارا قبل الزوال وبعده (غير معتبر على) ظاهر (المذهب) وعليه أكثر المشايخ وعليه الفتوى بحر عن الخلاصة(فيلزم أهل المشرق برؤية أهل المغرب) إذا ثبت عندهم رؤية أولئك بطريق موجب كما مر، وقال الزيلعي: الأشبه أنه يعتبر لكن قال الكمال: الأخذ بظاهر الرواية أحوط.
(قوله: واختلاف المطالع) جمع مطلع بكسر اللام موضع الطلوع بحر عن ضياء الحلوم (قوله: ورؤيته نهارا إلخ) مرفوع عطفا على اختلاف ومعنى عدم اعتبارها أنه لا يثبت بها حكم من وجوب صوم أو فطر فلذا قال في الخانية فلا يصام له ولا يفطر وأعاده وإن علم مما قبله ليفيد أن قوله لليلة الآتية لم يثبت بهذه الرؤية بل ثبت ضرورة إكمال العدة كما قررناه فافهم (قوله: على ظاهر المذهب) اعلم أن نفس اختلاف المطالع لا نزاع فيه ...وإنما الخلاف في اعتبار اختلاف المطالع بمعنى أنه هل يجب على كل قوم اعتبار مطلعهم، ولا يلزم أحد العمل بمطلع غيره أم لا يعتبر اختلافها بل يجب العمل بالأسبق رؤية حتى لو رئي في المشرق ليلة الجمعة، وفي المغرب ليلة السبت وجب على أهل المغرب العمل بما رآه أهل المشرق، فقيل بالأول واعتمده الزيلعي وصاحب الفيض، وهو الصحيح عند الشافعية؛ لأن كل قوم مخاطبون بما عندهم كما في أوقات الصلاة، وأيده في الدرر بما مر من عدم وجوب العشاء والوتر على فاقد وقتهما وظاهر الرواية الثاني وهو المعتمد عندنا وعند المالكية والحنابلة لتعلق الخطاب عملا بمطلق الرؤية في حديث «صوموا لرؤيته» بخلاف أوقات الصلوات، وتمام تقريره في رسالتنا المذكورة."
(ج:2،ص:393،ط:سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
" هذا إذا كانت المسافة بين البلدين قريبة لا تختلف فيها المطالع، فأما إذا كانت بعيدة فلا يلزم أحد البلدين حكم الآخر، لأن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف فيعتبر في أهل كل بلد مطالع بلدهم دون البلد الآخر."
(کتاب الصوم ،ج:2،ص:83، ط: دار الكتب العلمية)
نیل الأوطار میں ہے:
"وثانيها: أنه لايلزم أهل بلد رؤية غيرهم إلا أن يثبت ذلك عند الإمام الأعظم فيلزم كلهم؛ لأن البلاد في حقه كالبلد الواحد إذ حكمه نافذ في الجميع، قاله ابن الماجشون".
(كتاب الصوم، باب الهلال إذا رآه أهل بلدة هل يلزم بقية البلاد الصوم، ج:4 ، ص:230 ، ط: دار الحديث، مصر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"رجل رأى هلال» رمضان وحده فشهد، ولم تقبل شهادته كان عليه أن يصوم، وإن أفطر في ذلك اليوم كان عليه القضاء دون الكفارة .... رجل رأى هلال الفطر وشهد، ولم تقبل شهادته كان عليه أن يصوم فإن أفطر ذلك اليوم كان عليه القضاء دون الكفارة كذا في فتاوى قاضي خان."
(کتاب الصوم، ج:1، ص:197،ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101939
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن