بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

دل میں برائی رہتے ہوئے کیسے معاف کیا جاتا ہے؟


سوال

اگر کسی رشتہ دار یا دو ست سے کسی بات پر ناراضی ہو جائے اور پھر بندہ یہ سوچ کر کے کہ اب چوں کہ ایک بار ناراضی ہو چکی ہے؛  اس  لیے اگر پھر سے ناراضی ختم ہو بھی جاتی ہے تو  ناراض ہونے کی وجہ  دل سےنہیں  جائے گی  تو  دل میں غصہ، بغض یا رنجش رکھ کر  ملنا منافقت  ہوگی؟  کیوں کہ قول و فعل میں تضاد تو بہرحال ہے!

جواب

واضح رہے کہ کسی مسلمان بھائی سے  تین  دن سے زیادہ قطع تعلقی کرنا حرام  و ناجائز ہے،  انسانی طبیعت   کی رعایت میں صرف تین  دن  تک  علیحدگی  کی   گنجائش ہے؛  تاکہ غصہ ختم ہوجائے،  اس کے بعد جو سلام میں پہل کرے گا اسے ناطہ جوڑنے کا پورا  اجر ملے گا ،  ورنہ دونوں گناہ گار ہوں گے، اور دل سے برائی دور کرنے کے لیے اپنے بھائی کے لیے دعا کی کثرت کرے۔

یہ خیال کہ دل میں غصہ، بغض یا رنجش  رکھ کر ملنا منافقت ہوگی  تو یہ محض وسوسہ ہے ، اولًا تو معافی تلافی کا مقصد ہی دل کی رنجش کو ختم کرنا ہے  اور  اگر  معافی تلافی  سے بھی دل پوری طرح صاف نہیں ہوتا تو  اس کی کوشش جاری رکھنی ہوگی، لیکن قطع تعلقی سے رنجش کبھی  بھی ختم نہیں ہوتی۔

بخاری شریف میں ہے:

"حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن أبي أيوب الأنصاري: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل لرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال، يلتقيان: فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام ."

(صحیح البخاری: كتاب الآداب، باب الهجرة، ج:8 ص:21، رقم الحديث: 6077، ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ: ’’حضرت ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی بھی شخص کے لیے  اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ علیحدگی اختیارکرنے کی گنجائش نہیں، (اور اس حد تک پہنچائے کہ) جب دونوں ملاقات کریں تو   ایک دوسرے سے اعراض  کریں، اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے  جو (رشتہ کو پھر بحال کرنے کی خاطر ) سلام میں پہل کرے۔‘‘  

فتح الباري میں ہے:

"قال النووي قال العلماء تحرم الهجرة بين المسلمين أكثر من ثلاث ليال بالنص وتباح في الثلاث بالمفهوم وإنما عفي عنه في ذلك لأن الآدمي مجبول على الغضب فسومح بذلك القدر ليرجع ويزول ذلك العارض."

(کتاب الٲدب: باب الهجرة، ج:10 ص:604، ط: دار السلام رياض)

ترجمہ: ’’امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ علماء (اس حدیث کو دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں)  مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے سے قطع تعلقی  کرنا تین راتوں سے زیادہ کی حرمت شریعت  کی جانب سے ہے،  اور (تین دن کی بھی علیحدگی ) صرف اس لیے معاف ہے کیوں کہ انسان  کی فطرت میں غصہ  ہے لہذ (تین دن  کے بقدر) معاف ہے تاکہ وہ دوبارہ لوٹے اس ( غصہ ) کی عارض  کے ختم ہونے کے بعد۔‘‘      

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"وقال أكمل الدين من أئمتنا: في الحديث دلالة على حرمة هجران الأخ المسلم فوق ثلاثة أيام."

(مرقاة المفاتيح: كتاب الآداب، باب ما ينهي عنه من التهاجر والتقاطع، ج:9 ص:230، ط: دار الكتب العلمية)

ترجمه:  ’’(مذکورہ بخاری شریف کی) حديث میں اس بات پر(واضح) دلالت   ہے کہ کسی مسلمان بھائی سے تین سے زیادہ قطع تعلقی کرنا حرام ہے۔’’

فقط والله  اعلم


فتوی نمبر : 144510101770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں