بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازوں کا فدیہ/ دماغی توازن کھوئے ہوئے مریض کی نماز کا حکم


سوال

1۔ایسے مریض کی نمازوں کا فدیہ یا فطرہ ادا کرنا لازم ہے جو کہ اسی بیماری کی حالت میں انتقال کر جائے؟ اور اگر ادا کرنا لازم ہے، تو ہر نماز کا کتنا فدیہ ادا کیا جائے گا؟

2۔ اور ایسا مریض جو کہ اپنا ذہنی توازن کھو چکا ہو اور اسی حالت میں انتقال کر جائے، تو کیا اس کی بھی نمازوں کا فدیہ ادا کرنا لازم ہے؟ اور اگر لازم ہے تو ہر نماز کے عوض کتنا فدیہ یا فطرہ ادا کیا جائے گا؟

جواب

1۔اگر کسی شخص کی زندگی میں کچھ نمازیں فوت ہوجائیں اور وہ کسی وجہ سے نمازوں کو ادا نہ  کرسکے، تو اول تو اس کے ذمہ موت سے پہلے ان نمازوں کی قضاء کرنا لازم اور ضروری ہے، البتہ اگر موت سے قبل اس نے قضاء نہیں کی، تو مرنے سے پہلے اس شخص کے ذمہ لازم ہے کہ اپنے مال میں سے قضاء نمازوں کے فدیہ کی ادائیگی کی اپنے ورثاء کو وصیت کرے اور ورثاء پر لازم ہے کہ اس کا فدیہ ایک تہائی مال سے ادا کریں البتہ  اگر ایک تہائی مال سے فدیہ پورا ادا نہ ہوسکے، تو اس سے زائد ورثاء پر ادا کرنا لازم نہیں ہے،اگر ادا کریں، تو ورثاء کی طرف سے میت پر احسان ہوگا،  اسی طرح اگر مرحوم نے نمازوں کے فدیہ کی ادائیگی کی وصیت نہیں کی تو ورثاء پر فدیہ کی دائیگی لازم نہیں، لیکن اگر وہ اپنی طرف سے ادا کردیں تو یہ ان کی طرف سے احسان ہوگا۔

باقی اگر نمازیں کسی ایسی بیماری کی وجہ سے فوت ہوئی ہیں، جس میں وہ نماز پڑھنے پر قادر نہیں تھا یعنی لیٹ کر سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھنے پر قادر نہیں ہوگا اور تو اس پر نمازوں کی قضاء بھی لازم نہیں ہے اور نہ ہی فدیہ ادا کرنالازم ہے، کیونکہ ایسی کیفیت میں اس پر نمازیں فرض ہی نہیں تھیں۔

ایک نماز کے فدیہ کی مقدار ایک صدقہ فطر (پونے دو سیر گندم یا اس کی قیمت) کے برا برہے۔

2۔ایسا مریض جو اپنا دماغی توازن کھو چکا ہو اور وہ صحیح غلط میں بالکل تمییز نہ کرسکے، اور چھہ نمازوں کا وقت گزر جائےتو اس پر نماز فرض نہیں ہے، لہٰذا اس کے ذمہ نماز وں کا فدیہ ادا کرنا یا اس کی وصیت کرنا بھی لازم نہیں ہے۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى الكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة  (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله).

(قوله: وإنما يعطي من ثلث ماله) أي فلو زادت الوصية على الثلث لايلزم الولي إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة".

(کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، ج:2، ص:72،73، ط:سعید)

السنن الکبری للبیهقي میں ہے:

"عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " رفع القلم عن ثلاثة: ‌عن ‌الصبي ‌حتى ‌يحتلم، وعن المعتوه حتى يفيق، وعن النائم حتى يستيقظ."

(كتاب الإقرار، ج:6، ص:139، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں