میں کورنگی میں رہتا ہوں، قریب کی مساجد اکثر بریلویوں کی ہیں اور دیوبندیوں کی مساجد کافی دور ہیں، اکثر نماز کے اوقات میں اپنی مساجد دور ہونے کی وجہ سے نماز میں پہنچنے میں دشواری ہوتی ہے اور میں دور جا بھی نہیں سکتاتو کیا ایسی صورت میں بریلوی حضرات کے پیچھے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے یا نہیں؟
اگر بریلوی امام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے مانند ہر جگہ حاضر ناظر عالم الغیب اور مختارِ کل سمجھتا ہو اور وہ ان عقائد کو تقریر یا تحریر میں ظاہر بھی کرتا ہو تو جان بوجھ کر ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہوگا، پڑھ لینے کی صورت میں لوٹانا لازم ہوگا اور اگر لاعلمی میں پڑھ لی تو نماز ہوجائے گی، لوٹانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اور اگر بریلوی امام موحد ہو ، شرکیہ عقائد نہ رکھتا ہو، صرف بدعات میں مبتلا ہو تو اس کی اقتداء میں نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ ہوجائے گی، ایسی صورت میں اگر قرب و جوار میں صحیح العقیدہ سنت کا پابند امام نہ ملے تو انفرادی نماز نہ پڑھے، بلکہ مجبورا ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لے تاکہ جماعت فوت نہ ہو۔
الدر المختار میں ہے:
"وفي النهر عن المحيط: صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة."
(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلوة، باب الامامة،562/2، سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144307101841
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن