بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنے کا حکم


سوال

کسی نے شادی کی پھر اپنی بیوی کی حقیقی بہن سے شادی کرلی ، یہ تو جمع بین الاختین ہوگیا، اب یہ جو دوسری بیوی ہے اس کی اولاد کاامامت، خطابت اور جنازہ پڑھانے میں کچھ حرج ہے؟ (نوٹ) ایک ساتھ دونوں بہنوں کو نکاح میں رکھنا برا نہیں سمجھ رہے۔

جواب

کسی بھی مسلمان کے لیے بیک وقت دو حقیقی بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا ہرگز جائز نہیں، ایک بہن کے نکاح (یا عدت) میں ہوتے ہوئے اس کی بہن سے نکاح کرنا قطعاً حرام ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"﴿ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ﴾ [النساء : 24]

(تم پر حرام کی گئی ہیں۔۔۔)کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ رکھولیکن جو پہلے ہوچکاہے(بیان القرآن)۔"

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی صراحتًا اس  کی ممانعت موجود ہے، نیز فقہاء نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ کسی حرام کو حلال سمجھنے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے، لہذا مذکورہ عمل کوبرانہ سمجھنااور حلال سمجھناخطرے کی بات ہے۔

لہذا دوسرا  نکاح فاسد ہے، اس سے علیحدگی لازم ہے اور اب تک جو تعلقات قائم کیے ہیں اس پر توبہ واستغفار کرنا بھی ضروری ہے، تاہم  اگر اس سے کوئی اولاد ہوگئی تو اس کا نسب  اس شخص سے ثابت ہوگااورمذکورہ اولاد  اگر نیک صالح اور متقی ہو اور امامت کی صلاحیت رکھتی ہو تو اس کی امامت، نمازپڑھانےمیں  کوئی حرج نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"فإن تزوج الأختين في عقدة واحدة؛ يفرق بينهما وبينه، فإن كان قبل الدخول؛ فلا شيء لهما، وإن كان بعد الدخول يجب لكل واحدة منهما الأقل من مهر مثلها ومن المسمى، كذا في المضمرات. وإن تزوجهما في عقدتين فنكاح الأخيرة فاسد، ويجب عليه أن يفارقها، ولو علم القاضي بذلك يفرق بينهما، فإن فارقها قبل الدخول؛ لا يثبت شيء من الأحكام، وإن فارقها بعد الدخول فلها المهر ويجب الأقل من المسمى ومن مهر المثل، وعليها العدة ويثبت النسب ويعتزل عن امرأته حتى تنقضي عدة أختها، كذا في محيط السرخسي."

(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الرابع المحرمات بالجمع، ج:1، ص:277، ط:دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"لكن في شرح العقائد النسفية: استحلال المعصية كفر إذا ثبت كونها معصية بدليل قطعي، وعلى هذا تفرع ما ذكر في الفتاوى من أنه إذا اعتقد الحرام حلالا، فإن كان حرمته لعينه وقد ثبت بدليل قطعي يكفر وإلا فلا بأن تكون حرمته لغيره أو ثبت بدليل ظني. وبعضهم لم يفرق بين الحرام لعينه ولغيره وقال من استحل حراما قد علم في دين النبي - عليه الصلاة والسلام - تحريمه كنكاح المحارم فكافر. اهـ. قال شارحه المحقق ابن الغرس وهو التحقيق."

(كتاب الزكاة، باب زكاة الغنم، مطلب استحلال المعصية القطعية كفر، ج:2، ص:292، ط:دار الفكر بيروت)

البحرالرائق میں ہے:

"‌شروط ‌الإمامة، وقد عدها الشرنبلالي في نور الإيضاح فقال وشروط الإمامة للرجال الأصحاء ستة أشياء: الإسلام والبلوغ والعقل والذكورة والقراءة والسلامة من الأعذار كالرعاف والفأفأة والتمتمة واللثغ وفقد شرط كطهارة وستر عورة اهـ."

(كتاب الصلاة، شرائط صحة الإمامة، ج:1، ص:365، ط:دار الكتاب الإسلامي)

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”احکام اسلام عقل کی نظر میں“  میں  لکھتے ہیں :

” اسی طرح دو بہنوں کا جمع کرنا حرام ہے ؛ کیوں کہ اس میں سوکن پنے کا حسد منجر بالعداوت (دشمنی کا سبب) ہوگا، جس سے قطع رحم ہوگا  اور یہ امر خدا تعالیٰ کو منظور نہیں ہے کہ اہلِ قرابت میں قطع رحم ہو، اور علی ہذا القیاس اس قسم کی قرابت داری، قریبی عورتوں کا آپس میں ایک شخص کے نکاح میں ہونا حرام ہوا۔ چناں چہ آں حضرت ﷺ فرماتے ہیں:   لایجمع بین المرأة و عمتها و لا بین المرأة وخالتها.“

(کتاب النکاح، مرد پر بعض اہل قرابت عورتوں کے حرام ہونے کی وجہ، ص:162، ط:توصیف پبلی کیشنز اردو بازار لاہور)

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144608100685

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں