ہم دو بھائی اور چار بہنیں ہیں، ہمارے والدصاحب کا ہمارے بچپن میں انتقال ہوگیا تھا ،ان کے ترکہ ایک مکان تھا ،اس مکان میں ایک بھائی اور دو بہنیں رہ رہی ہیں ،میں نے اپنی والدہ کے کہنے پر سب بہن بھائیوں کی موجودگی میں اپنے شوہر کی رقم سے اس مکان کے اوپر دوسری منزل بنوائی تھی،جب کہ میری ماں نے میرے ساتھ ایگریمنٹ کیا کہ جب گھر چھوڑ کے جانا چاہو یا جب گھر بیچیں گے تو بھائی لوگ تمہیں تمہارا لگایا ہوا پیسہ واپس کریں گے،والدہ کے انتقال کے بعد میرا ایک بھائی اور دو بہنیں میرے لگائے ہوئے پیسے مجھے واپس نہیں دینا چاہتے، گھر بکنے کے بعد سارا پیسہ وہ آپس میں باٹنا چاہتے ہیں ۔
1۔میر ا سوال یہ ہے کہ میں نے جو اس گھرمیں شوہر کی رقم لگوائی تھی، وہ مجھے ملے گی یا نہیں ؟جب کہ میں نے معاہدہ کیا تھا ،والدہ کے ساتھ بہن بھائیوں کی موجودگی میں کہ میں یہ رقم بعد میں واپس لوں گی ۔
2۔دوسرا سوال یہ ہے کہ والد صاحب کے ترکہ کی تقسیم کیسے ہوگی ؟ والد صاحب کے ورثاء میں ایک بیوہ ،دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں ،پھر ہماری والد ہ کا انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں ۔
1۔صورت مسئولہ میں اگر واقعتاًسائلہ نے اپنی والدہ کے کہنے پر سب بہن بھائیوں کی موجودگی میں مکان کی تعمیر پر میں رقم لگائی تھی او ر اس رقم کی واپسی کا معاہدہ بھی کیا تھا تو اس صورت میں اس مکان کے فروخت کرنے کی صورت میں اولاً سائلہ کو ان کی لگائی ہوئی رقم کا ادا کرنا لازم ہے ،مذکورہ رقم کی ادائیگی کے بعد بقیہ مال تمام ورثاء میں ان کے حصوں کے موافق تقسیم کیا جائے گا۔
2۔ مرحوم کی میراث تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کےحقوقِ متقدمہ یعنی تجہیزو تکفین کے اخراجات ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل مال سے ادا کرنے کے بعد،اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی مال کے تہائی حصہ میں سے نا فذ کرنے کے بعد، باقی تمام ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو8حصوں میں تقسیم کر کے،2،2حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو ،اور ایک ، ایک حصہ مرحوم کی ہر بیٹی کو ملے گا۔
تقسیم کی صورت یہ ہے:
میت:( والد/والدہ)،مسئلہ :8
بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
2 | 2 | 1 | 1 | 1 | 1 |
یعنی ہر سو روپےمیں سے 25 روپےمرحوم کے ہر ایک بیٹے کو ،12.50روپے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے ۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما حكم القرض فهو ثبوت الملك للمستقرض في المقرض للحال، وثبوت مثله في ذمة المستقرض للمقرض للحال، وهذا جواب ظاهر الرواية".
(كتاب القرض ،فصل في حكم القرض ،ج:7،ص:396،ط:رشيدية)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:
"إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك ففي ذلك احتمالات أربعة: الاحتمال الأول - أن يكون المعمر صرف بإذن وأمر الشريك الآخر من ماله قدرا معروفا وعمر الملك المشترك للشركة أو أنشأه مجددا فيكون قسم من التعميرات الواقعة أو البناء ملكا للشريك الآمر ولو لم يشترط الشريك الآمر الرجوع على نفسه بالمصرف بقوله: اصرف وأنا أدفع لك حصتي من المصرف. وللشريك المأمور الذي عمر الرجوع على شريكه بحصته أي بقدر ما أصاب حصته من المصرف بقدر المعروف يعني إذا كان الملك مناصفة فيأخذ منه نصف المصرف وإذا كان مشتركا بوجه آخر فيأخذ المصرف على تلك النسبة".
(الكتاب العاشر الشركات، الباب الخامس في بيان النفقات المشتركة ويحتوي على فصلين، المادة :1309، ج:3،ص:310،ط:دار الجيل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606101104
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن