بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

دو بیوہ اور اولاد کے درمیان میراث کی تقسیم


سوال

میرے والد صاحب کا  کاروبار تھا ،جو میں اکیلا( بھائیوں میں )سنبھالتا تھا ،والد صاحب کا انتقال ہوگیا ،ان کے انتقال کے بعد بھی سارا کاروبار میں نے سنبھالا  ،میرے بھائی  بہن غیر شادی شدہ تھے، اسی کاروبار سے سب کی شادیاں کرائیں ،صرف ایک بھائی ہے، اس کی شادی ابھی تک نہیں ہوئی ،اور میں نے اسی کاروبار  سے ایک پلاٹ بھی خریدا ہے،اب فی الحال وہ کاروبار ختم ہوچکا ہے ،چند سوالات ہیں :

1۔کاروبار کی جگہ اور میرا خریدا ہو اپلاٹ اس کی تقسیم کیسے ہوگی ؟آیا جو پلاٹ میں نے خریدا ہے ،یہ بھی تقسیم میں شامل ہوگا ؟

2۔ایک بھائی کی شادی نہیں ہوئی ہے، آیا پہلے اس کی شادی کرائیں، پھر تقسیم کریں یا شادی کرائے بغیر تقسیم کردیں ؟حا لا ں کہ بقیہ سب بھائی بہنوں نے اسی کاروبار کے پیسوں سے شادی کی ہے ۔

3اسی طرح ہمارے والد صاحب کا باہر ملک میں ایک اور  کاروبار تھا ، اس میں صرف دوکان کا سامان ہمارا ذاتی ہے، اس سامان کی تقسیم کیسے ہوگی ؟

وضاحت : والد صاحب کی دو بیویاں ہیں ایک  بیوی سے دوبیٹے ہیں، دوسری بیوی سے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں ،( والد صاحب کے والدین پہلے انتقال کرگئے ہیں)ان سب میں شرعاًمیراث کیسے تقسیم ہوگی ؟(دونوں والدہ حیات ہیں )

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں سائل نے والدصاحب کے کاروبار  کی رقم سے جوپلاٹ خرید اہے وہ پلاٹ  والدکا  ہی  شمار ہو گا اور اب والدکے انتقال کے بعد یہ پلاٹ اورکاروبار کی جگہ ان کے ورثاء میں شرعی قانون کے مطابق تقسیم ہوگا۔

2۔اگر تمام ورثاء باہمی رضامندی سے والد کے کاروبار کی رقم سے اپنے چھوٹے بھائی کی شادی کرائیں اور میراث کی تقسیم بعد میں کریں تو یہ درست ہے اور اگر کوئی وارث اس پر راضی نہ ہو تو اس کے حصے میں سے بھائی کی شادی کرنا شرعاًدرست نہیں ۔

3سائل کے والد مرحوم کے ورثاء میں اگر دوبیوہ ،چار بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں  ،جب کہ والد  کے والدین پہلے انتقال کرگئے ہیں ،تو اسی صورت میں مرحوم والد کی میراث  کی تقسیم کا شرعی طریقہ  یہ ہےکہ سب سے پہلے مرحوم کےحقوقِ متقدمہ (تجہیزو تکفین کے اخراجات)ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو کل مال سے ادا کرنے کے  بعد،اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی  مال کے تہائی  حصہ میں سے  اسے  نا فذ کرنے کے بعد  باقی تمام ترکہ    منقولہ و غیر  منقولہ کو96حصوں میں تقسیم کر کے مرحوم کی  ہر ایک بیوہ کو 6حصے اور مرحوم کےہر ایک  بیٹے کو 14حصے اور مرحوم کی ہرایک بیٹی کو 7حصےملیں گے۔ 

صورت تقسیم یہ ہے:

میت(والد )،مسئلہ :96/8

بیوہ بیوہ بیٹا بیٹابیٹابیٹابیٹی بیٹی بیٹی بیٹی 
17
66141414147777

یعنی سو روپے میں سے مرحوم کی ہر ایک  بیوہ کو 6.25روپے،مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو14.583روپےاور مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو7.291روپے  ملیں  گے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

لما في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له

(‌‌ ‌‌كتاب الشركة، فصل في الشركة الفاسدة، ج:4،ص:325، ط،سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها للعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض

(‌‌كتاب القسمة، ج:6، ص:260، ط،سعید)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144512101159

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں