1۔دو بھائیوں نے مل کر ایک گیس میٹر لگوایاتھا،اس کے بعد ایک بھائی نے اس میٹر سے اپنا کنکشن ختم کردیا اور بھائی کو بتایا کہ میں یہ کنکشن ختم کررہا ہوں،پھر ایک ہی بھائی اس میٹر کو استعمال کرتا رہا،پھر اس نے اپنے دوسرے بھائی جس نے میٹر سے اپنا کنکشن ختم کردیا تھا اس سے مطالبہ کررہا ہے کہ اس بل کو ادا کرنے میں آپ میرے ساتھ شریک ہوں گے کیوں کہ میٹر لگوانے میں ہم دونو ں شریک تھے،جب کہ دوسرا بھائی کہہ رہا ہے کہ جب میں نے میٹر سے کنکشن ختم کرکے استعمال ہی نہیں کیا ہے تو میں بل ادا کرنے میں کیسے آپ کے ساتھ شریک ہوجاؤں،اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس ایک بھائی کا دوسرے بھائی سے بل ادا کرنے میں شریک ہونے کا مطالبہ درست ہے؟
2۔گیس بل کے علاوہ میٹر کی جو فیس ہوتی ہے، تو کیا اس کی ادائیگی میں دونوں بھائی شریک ہوں گے؟
3۔ جس بھائی نے میٹر سے کنکشن ختم کیا ہے وہ دوسرے بھائی سے کہتا ہے کہ میٹر چوں کہ ہم نے مل کر لگوایا ہے لہذا میرے حصے کے پیسے مجھےدیں میٹر پورا آپ کا ہوگیا اور یا مجھ سے اپنے حصے کے پیسے لے لیں میٹر میرا ہوجائے گا،دوسرا بھائی اس کے لیے بھی تیار نہیں بلکہ وہ اس بات پر اصرار کر رہا ہے کہ بل ہم دونوں مل کر ادا کریں گے،اس حوالے سے ہماری راہ نمائی فرمائیں۔
1۔صورتِ مسئولہ میں جس بھائی نے میٹر سے اپنا کنکشن ختم کیا تھا اور اس نے گیس استعمال ہی نہیں کی ہے تو اس دوسرے بھائی کا اس سے بل میں شریک ہونے کا مطالبہ درست نہیں،بلکہ بل اس پر ادا کرنا لازم ہے جو گیس استعمال کرتا ہے۔
2۔میٹر میں دونوں بھائی شریک ہیں، اگرچہ ایک بھائی نے اپنا کنکشن ختم کیا ہے؛لہذا میٹر کی فیس کی ادائیگی میں دونوں بھائی شریک ہوں گے۔
3۔ایک شریک کا دوسرے شریک کو اپنا حصہ بیچنا درست ہے، لیکن دوسرے شریک کو اس پر مجبور نہیں کیا جاسکتا؛لہذا اگر ایک بھائی میٹر میں اپنا حصہ فروخت نہیں کرنا چاہتااور دوسرے کا حصہ خریدنا بھی نہیں چاہتاتو اسے اس پر مجبور نہیں کیا جاسکتا،میٹر مشترک رہے گا اور جو اخراجات میٹر کی مد میں ہوں گےوہ مشترک ہوں گے،البتہ بل اسی بھائی کے ذمہ ہوگاجو گیس استعمال کرے گا۔
القواعد والضوابط الفقهية في الضمان المالي میں ہے:
"وأما قاعدة (الغرم بالغنم):فإنها وإن جاءت على عكس قاعدة (الخراج بالضمان) - أي الغنم بالغرم - في اللفظ إلا أن المعنى فيهما متفق، وقد ذكر العلماء لهذه القاعدة صيغا كلية ونصوصا فقهية أسوقها كما يلي:
١ - «الغرم بالغنم»:
نص على هذه الصيغة كل من: أبي سعيد الخادمي وأصحاب مجلة الأحكام العدلية
٢ - «من كان الشيء له كانت نفقته عليه»:
نص على هذه الصيغة شيخ الإسلام ابن تيمية .
٣ - «من ملك الغنم كان عليه الغرم»:
نص على هذه الصيغة يوسف بن عبد الهادي .
٤ - «النقمة بقدر النعمة»:
نص على هذه الصيغة أصحاب مجلة الأحكام العدلية .
٥ - «كل مشترك نماؤه للشركاء ونفقته عليهم ونقصه عليهم»."
( المبحث الأول: قاعدة: الخراج بالضمان وقاعدة: الغرم بالغنم، المطلب الأول: في صيغ القاعدة، ص: ٢٠٣ - ٢٠٤، ط: دار كنوز إشبيلية للنشر والتوزيع، السعودية)
شرح المجلّۃ لرستم باز میں ہے:
"لأحد الشریكین إن شاء باع حصته إلی شریکه و إن شاء باعها لآخر بدون إذن شریکه… أمّا في صورخلط الأموال واختلاطها التي بینت في الفصل الأول لایسوغ لأحد الشریکین أن یبیع حصته في الأموال المشترکة المخلوطة أو المختلطة بدون إذن شریکه۔ أما لو باعها بإذن شریکه أو باعها من شریکه جاز کما في الملتقی وغیره، والفرق: أن الشرکة اذا کانت بینهما من الإبتداء بأن اشتریا حنطة أو ورثاها کانت کل حبة مشترکة بینهما، فبیع کل منهما نصیبه شائعاً جائز من الشریک والأجنبي، بخلاف ما اذا کان بالخلط أو الإختلاط؛ لأن کل حبة مملوکة لأحدهما بجمیع أجزائها لیس للآخر فیها شرکة، فإذا باع نصیبه من غیر إذن الشریک لایقدر علی تسلیمه إلا مخلوطاً بنصیب الشریک فیتوقف علی إذنه، بخلاف بیعه من الشریک للقدرة علی التسلیم۔ (مجمع الانهر) قلت: ومثل الخلط والإختلاط بیع مافیه ضرر علی الشریک أو البائع أو المشتری کبیع الحصة الشائعة من البناء أو الغراس أو الزرع بدون الأرض، وقد استوفینا الکلام علی ذلک في شرح المادة: (۲۱۵) و مثله لو باع أحد الشریکین بیتاً معیناً باع من دار مشترکة أو باع نصیبه من بیت معین منها فالبیع لایجوز۔ (رد المحتار) وذلک لتضرر الشریک الآخر عند القسمة إذ لوصح البیع في نصیب البائع لتعین نصیبه فیه."
(الکتاب العاشر : في أنواع الشرکات ، الباب الأوّل : في شرکة الملک وتقسیمها ، الفصل الثاني : في کیفیة التصرف في الأعیان المشترکة، ج:1، ص:483 ، المادة: 1088، ط: فاروقیه کوئٹه)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603100354
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن