اگر کسی کی تنخواہ دو لاکھ روپے ہو اور سارے گھر کاخرچہ بھی اسی میں سے ہو جو کہ ڈیڑھ لاکھ ہے تو ایسےشخص پر قربانی واجب ہو گی؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کی ملکیت میں قربانی کے تین دنوں میں بنیادی اخراجات اور قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد اگر ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو یا تجارت کا سامان یا ضرورت اور استعمال سےزائد اتنا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہویا ان میں سے بعض یا سب کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوتو اس پر قربانی واجب ہوگی ورنہ واجب نہیں ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر (لا الذكورة فتجب على الأنثى)، خانية.۔۔۔(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً،..."الخ
(كتاب الأضحية، ج: 6، ص: 312، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الزكاة، الباب الثامن في صدقة الفطر، ج: 1، ص: 191، ط: دار الفكر بيروت)
البحر الرائق میں ہے:
"وبالإسلام لأنها عبادة والكافر ليس بأهل لها، وباليسار لأنها لا تجب إلا على القادر وهو الغني دون الفقير ومقداره مقدار ما تجب فيه صدقة الفطر."
(كتاب الأضحية، ج: 8، ص: 198، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144512100462
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن