بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

دو مختلف الجنس کرنسی کے تبادلے کا حکم


سوال

دو مختلف الجنس کرنسی کے تبادلے کے حوالے سے چند سوالات کے جواب آپ سے درکار ہیں۔ 

۱۔ایرانی کرنسی جس کی مارکیٹ ویلیو کوئی نہیں ہے ہر دو منٹ میں اس کی قیمت میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، اس کو پاکستانی کرنسی یا افغانی کرنسی سے اس طور پر خریدنا کے دوسری جانب یعنی پاکستانی یا افغانی کرنسی میں کچھ کرنسی نقد دی جائے اور کچھ ادھار ہو، لیکن اس کا وقت متعین ہو، نیز یہ بیع کمی بیشی کے ساتھ ہو تو یہ جائز ہے یا نہیں ؟کیونکہ تبادلہ کرنے والے اس کو دیگر اشیاء تجارت مثلا چینی گندم اور آٹا وغیرہ پر قیاس کر کے ادھار کو جائز سمجھتے ہیں، تو کیا ان کا یہ قیاس درست ہے یا جانبین سے مکمل قبضہ ضروری ہے ؟

۲۔اگر ایک جانب سے قبضہ ہو اور دوسری جانب میں حوالہ کی بات کی جائے ،یعنی افغانستان میں مثلا جو ایرانی صراف بیٹھا ہوا ہے اور ان کو یہ کہ کر افغانستانی کرنسی  دی جائے کہ آپ ایرانی مجھے ایران میں دے دیں، یعنی میرے دوست کو دے دیں، یا فلاں کمپنی کو بھیج دیں، اور وہ پھر ایران فون کر کے اس کے دوست یا کمپنی کو ایرانی کرنسی حوالے کرتا ہے تو یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور یہ ہاتھ در ہاتھ قبضہ شمار ہوگا یا نہیں؟ 

۳۔آج کل بعض علماء کرام نے کرنسیوں کا تبادلہ کمی بیشی کے ساتھ ادھار کی صورت میں بھی جائز لکھا ہے ،لیکن یہ تب جائز ہے جبکہ مقصود تجارت ہو، یعنی ایرانی کرنسی خرید کر مقصود اس سے ایرانی مصنوعات لینی ہو، سرمایہ کاری یعنی پیسوں سے پیسہ کمانا نہ ہو ،اور تجارت کی صورت میں اس لیے جائز لکھا ہے کہ اس کی ضرورت ہے، تجارت اس کے بغیر مشکل ہوتی ہے، اور تاجر کے پاس اتنی بڑی رقم یک جا حالاً موجود نہیں ہوتی، کہ وہ مثلاًایرانی کرنسی خرید کر افغانستانی کرنسی یک مشت اداکرے، تو کیا تجارت کی نیت سے یہ جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ دومختلف ممالک کی کرنسیاں باہم مختلف اجناس کے حکم میں  ہیں ، لہذا دو مختلف الجنس کرنسیوں کی باہم خرید وفروخت کمی زیادتی کے ساتھ نقد میں تو  جائز ہے، البتہ ادھار کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔

۱۔کرنسی کا تجارتی اشیاء پر قیاس کرنا صحیح نہیں، مکمل کرنسی پر ہاتھ در ہاتھ قبضہ  ضروری ہے۔

۲۔مذکورہ  صورت    مروجہ ہنڈی (حوالہ) کی ہے، اور اس  کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے؛ اس لیے جتنی رقم دی جائے اتنی ہی رقم آگے پہنچانا ضروری ہوتا ہے، اس میں کمی بیشی بھی جائز نہیں ہوتی، البتہ بطورِ فیس/اجرت الگ سے طے شدہ اضافی رقم لی جاسکتی ہے۔اور  کرنسیوں کے مختلف ہونے کی صورت میں (مثلا ایک طرف ایرانی کرنسی  ہے اور دوسری طرف افغانی کرنسی ہے ) لازم ہے کہ دوسرےملک جہاں قرض کی ادائیگی کرنی ہے ( مثلاً افغانستان میں) ادائیگی کے وقت یا تو قرض لی ہوئی کرنسی (مثلاً  ایرانی  کرنسی )  ہی پوری پوری واپس کرے یا پھر  جتنی پاکستانی کرنسی قرض  دی گئی تھی ادائیگی  کے دن افغانستان  میں ایرانی کرنسی  کے جو ریٹ چل رہے ہوں اس  ریٹ کے مطابق، قرض دی گئی ایرانی کرنسی کے جتنے افغانی روپے بنتے ہیں ، افغانستان میں ادا کیے جائیں،  اس مروجہ ہنڈی (حوالہ )  میں  مارکیٹ ریٹ سے کم یا زیادہ  طے کر کے لین دین کرنا جائز نہیں ہے۔ 

۳، کرنسی سے کرنسی کا  ادھار میں تبادلہ کسی بھی صورت جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)".

(باب الصرف،ج:5،ص:257/259،ط:سعيد)

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"وأما العملة الأجنبيةمن الأوراق فهي جنس آخر،فيجوز مبادلتها بالتفاضل،فيجوز ثلاث ربيات باكستانية بريال واحد سعودي."

(كتاب المساقاة والمزارعة،باب الربا،ج:1،ص:590،ط:دارالعلوم كراچی)

فتاوی بینات میں ہے:

"جس طرح حقیقی زر سونا اور چاندی کی بیع میں متحد الجنس ہونے کی صورت میں برابری اور تقابض ضروری ہے، اسی طرح باتفاق علماء و اہل حق رائج الوقت کرنسی نوٹ، اور کاغذی سکہ میں بھی متحد الجنس و نوع کی صورت میں برابری اور تقابض ضروری ہے، مثلاً ایک ڈالر کے عوض دو ڈالر کی بیع جائز نہیں ، ایک پونڈ کے عوض دو پونڈ کی بیع جائز نہیں ہے۔ علیٰ ہذا القیاس تمام ممالک کے کاغذی سکوں کا حکم ہے، ہر ملک کا سکہ الگ الگ جنس ثمن ہے ایک ملک کے مساوی سکہ میں تفاضل ربوا اور سود ہوگا، مثلاً ایک ڈالر کے بدلہ میں دو ڈالر ایک ریال کے بدلہ میں دو ریال،ایک پونڈ کے بدلہ میں دو پونڈ ایک روپیہ کے بدلہ میں دو روپیہ یا ایک روپیہ کچھ پیسے ۔لیکن مختلف ممالک کے سکے مختلف جنس کے حکم میں ہونے کی وجہ سے اس میں تفاضل جائز ہے ، اور ہوتا بھی یہی ہے، مثلاً ایک ڈالر کے بدلہ میں ۱۶؍روپے ایک ریال کے بدلہ میں چار روپے ، تاہم نقداً بنقدٍ ہونا ضروری ہے ادھار جائز نہیں ہے کیونکہ یہ حقیقی ثمن سونا اور چاند ی کے حکم میں ہیں، لہٰذا مختلف ممالک کے سکوں کی جب ہوتو دست بدست ہونا ضروری ہے۔"

(کتاب الزکوٰۃ ج:2ص:675ط:مکتبہ بینات)

فتاوی حقانیہ میں ہے:

"سوال:آج کل غیر ملکی کرنسی کی خرید وفروخت کا کاروبار عام ہے، تاجر لوگ غیر ملکی کرنسی کم قیمت پرخرید کر زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں، مثلا سعودی ریال ۱۳؍روپے میں خرید کر ۱۵؍روپے میں فروخت کیا جاتا ہے تو کیا اس طرح غیرملکی کرنسی کی خرید وفروخت سود میں داخل ہے یا نہیں؟ 

الجواب:سود متحقق ہونے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں اشیاء ایک ہی جنس سے ہو، اگر جنس مختلف ہوجائے تو ان میں تفاضل (یعنی) جائز ہے ۔ موجودہ دور میں مختلف ممالک کی کرنسی مختلف الاجناس اشیاء میں داخل ہے ، اس لئے ان کی خرید وفروخت میں کمی بیشی جائز ہے۔ لہٰذا صورت  مسئولہ میں ایک سعودی ریال ۱۳؍روپے میں خرید کر ۱۵؍روپے میں فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ 

لما قال العلامہ ابوالحسن القدوریؒ: فاذا عدم الوصفان الجنس والمعنی المضمون الیہ حل التفاضل والنساء واذا وجد حرم التفاضل والنساء واذا وھد احدھما وعدم الاٰخر حل التفاضل وحرم النساء(مختصرالقدوری علی صدراللباب:ج؍۱،ص؍۱۲۱، باب الربا)۔"

(فتاوی حقانیه ج:6،ص:295،ط:دارالعلوم حقانیه)

"اسلامی معیشت کے بنیادی اصول  "میں ہے:

"آج کل مختلف ملکوں کے سکے تبادلہ ہوتاہے، مثلاً:سعودی ریال کا تبادلہ پاکستانی روپیوں سے ہوتاہے،ڈالر کا تبادلہ پاکستانی روپیوں سے ہوتاہے۔۔۔تو ان سب صورتوں میں کمی وزیادتی جائز ہے، مثلاً ایک ریال کے بدلے خواہ پانچ روپے یاچھ روپے یا اس سے کم وبیش لئے جاویں ، تو ازروئے شرع جائز ہے، کیوں کہ دومختلف ملکوں کے سکے ازروئے اصولِ شرع دومختلف جنس کی طرح ہیں ۔۔۔جب کہ معاملہ ہاتھ در ہاتھ ہو،ادھارنہ فروخت کیا جاتاہو۔۔۔الخ"

(مختلف ممالک کے سکوں کا تبادلہ،ص:202/ 203،ط:اسلامی کتب خانہ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144607101492

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں