کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنے وارثوں میں تقسیم کر دی اوردو بچے جو دوسری بیوی سے ہیں وہ پڑھ رہے ہیں،تو ان کے لیے کچھ رقم الگ کر کے اپنے کسی دوست کو دے دی کہ اسے اپنے کاروبار میں لگا دے،اور یہ بتا دیا کہ یہ رقم میرے ان دو نابالغ بچوں کے لیے ہے،اور اپنے بھائی کو وکیل بنا دیا کہ وہ یہ رقم لے کر ان بچوں کو دے گا،جب بچے پڑھائی مکمل کر لیں گے۔اب پوچھنا یہ ہے کہ اس رقم میں باقی ورثاء کا حق ہوگا یا نہیں؟اگر صرف انہیں دو بچوں کا حق ہے توان دو بچوں میں کیسے تقسیم ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نےجتنی رقم اپنے دو نابالغ بیٹوں کے لیے الگ کر کے اپنے دوست کو کاروبار کے لیے دی ہے،تو وہ رقم منافع سمیت(اگر منافع ہواہو ،ورنہ اصل رقم)صرف انہیں بچوں کی ملکیت ہے،اسے باپ کا ترکہ قرار دے کر اس میں وراثت جاری نہیں ہوگی،نیز اگر باپ نے ہر ایک کا حصہ متعین نہیں کیا تھا،تو دونوں کا حصہ برابر،یعنی آدھا،آدھا ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وهبة من له ولاية على الطفل في الجملة) وهو كل من يعوله فدخل الأخ والعم عند عدم الأب لو في عيالهم (تتم بالعقد) لو الموهوب معلوما وكان في يده أو يد مودعه، لأن قبض الولي ينوب عنه، والأصل أن كل عقد يتولاه الواحد يكتفى فيه بالإيجاب."
(کتاب الھبة،جلد:5،صفحة:695،سعيد)
قرة عيون الاخيار تكملہ رد المحتار میں ہے:
"نعم إذا قلناإذا كان الولدان صغيرين تجوز الهبة مخالفا لإطلاق المتون عدم جواز هبة واحد من اثنين، ولكن إذا تأمل الفقيه في علة عدم الجواز على قول الإمام وهي تحقق الشيوع، يجزم بتقييد كلام المتون بغير ما إذا كانا صغيرين، لأن الأب إذا وهب منهما تحقق القبض منه لهما بمجرد العقد، بخلاف ما إذا كانا أحدهما كبيرا فإن قبض الكبير يتأخر عن العقد فيتحقق الشيوع عند قبضه كما مر عن الخانية ... و أفاد أنها للصغيرين تصح لعدم المرجح لسبق قبض أحدهما، وحيث اتحد وليهما فلا شيوع في قبضه، ويؤيده قول الخانية: داري هذي لولدي الأصاغر يكون باطلا؛ لأنها هبة فإذا لم يبين الأولاد كان باطلا اهـ فأفاد أنه لو بين صح."
(كتب الهبة،جلد:12،صفحة:610،دار عالم الكتب الرياض)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101370
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن