دو شخص مثلا زید اور عمرو نے مشترکہ کاروبار شروع کیااور دونوں میں سے ہر ایک نے چالیس چالیس ہزار ملائےاور منافع میں دونوں نے برابری کا معاہدہ طے کیا،کچھ عرصہ بعد زید نے رأس المال میں اضافہ کیامثلا چالیس ہزار مزید ملالیے،اب ان کے درمیان منافع کی تقسیم کی کیاصورت ہوگی؟
نیز یہ مشارکین چاہتے ہیں کہ اصل رأس المال دونوں کے پاس لوٹ آئے،اور منافع سے آہستہ آہستہ نکال لیں، اس کے لیے یہ صورت اختیار کرتے ہیں کہ منافع تقریباچالیس ہزار روپے ہیں،اب یہ تیس ہزار روپےتو آپس میں برابر تقسیم کرلیتے ہیں،بقیہ دس ہزارسے متعلق عمرو جس کا رأس المال میں حصہ کم ہے وہ زید سے کہتا ہے کہ آپ دس ہزار اپنے اضافہ شدہ پیسوں کے مقابلے میں وصول کرتے رہو،کیا یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟صحیح طریقہ کیا ہے،راہ نمائی فرمادیں؟مزید مروجہ ناجائز صورتیں ہوں تو وہ بھی بتادیں؟
صورتِ مسئولہ ميں جب زيد اور عمرو نے سرمایہ اور نفع کے برابر ہونے کی بنیاد پر مشترکہ کاروبار شروع کیا تھاتو ابتداءًان کی یہ شراکت داری شرکتِ مفاوضہ تھی، پھر کچھ عرصہ بعد جب ایک شریک زید نےسرمایہ میں مزید اضافہ کیا تو ان کی آپس کی یہ شراکت داری اب شرکتِ عنان بن گئی ہے، لہذامذکورہ صورت میں اب زید اور عمرو کوازسرِ نو معاہدہ کرکےاپنے مشترکہ كاروباركےمنافع کو فیصد (مثلا: دونوں شرکاء کو پچاس پچاس فیصد، یا ایک شریک کو ساٹھ اور دوسرے کو چالیس فیصد وغیرہ) کے لحاظ سے طےکرناضروری ہے،اس کے بعد طے شدہ فیصدکے اعتبار سےمنافع کو تقسیم کیا جائے گا،البتہ نقصان ہونے کی صورت میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ ہر شریک کا نقصان اُس کے مال کے تناسب سے ہوگا، یعنی جتنے فیصد کسی کی سرمایہ کاری ہے ، اتنے ہی فیصد وہ نقصان میں حصہ دار ہوگا ۔
نیزاگردونوں شریک ( زید اور عمرو) کام کرتے ہوں، لیکن ایک شریک زیادہ محنت کرتاہو اورکاروبار کوزیادہ وقت دیتاہو یا ایک شریک کام کرتاہو اور دوسرا شریک کام نہیں کرتا ہو تو ایسی صورت میں جو کام کرتا ہو یا زیادہ محنت اور وقت دیتا ہو اس کے لیے نفع کی شرح باہمی رضامندی سے بڑھانادرست ہے،لیکن جو شریک کام نہیں کرتا اس کے لیے نفع کا تناسب اس کے سرمائے سے زیادہ مقرر کرنا جائز نہیں ہوگا۔
باقی عمرواور زید کاآپس میں یہ معاملہ کرناکہ زید اپنے اضافی پیسوں کے بدلے منافع میں سے متعینہ طورپر10000روپےوصول کرےگا،یہ درست نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وهي) أربعة: مفاوضة، وعنان، وتقبل، ووجوه، وكل من الأخيرين يكون مفاوضة وعنانا كما سيجيء - إما مفاوضة) من التفويض، بمعنى المساواة في كل شيء (إن تضمنت وكالة وكفالة) لصحة الوكالة بالمجهول ضمنا لا قصدا (وتساويا مالا) تصح به الشركة، وكذا ربحا كما حققه الواني."
(کتاب الشركة، ج:4، ص:305 تا 306، ط:سعید)
وفیه ایضا:
"(و) لذا (تصح) عاما وخاصا ومطلقا ومؤقتا و (مع التفاضل في المال دون الربح وعكسه، وببعض المال دون بعض، وبخلاف الجنس كدنانير) من أحدهما (ودراهم من الآخر، و) بخلاف الوصف كبيض وسود وإن تفاوتت قيمتهما والربح على ما شرطا (و) مع (عدم الخلط) لاستناد الشركة في الربح: إلى العقد لا المال - فلم يشترط مساواة واتحاد وخلط (ويطالب المشتري بالثمن فقط) لعدم تضمن الكفالة"
(کتاب الشركة، ج:4، ص:311 تا 314، ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"(ومنها) : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح."
(کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ج:6، ص:59، ط:دارالکتب العلمیة۔بیروت)
وفیه ایضاً:
"إذا شرطا الربح على قدر المالين متساويا أو متفاضلا، فلا شك أنه يجوز ويكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهما والوضيعة على قدر المالين متساويا ومتفاضلا؛ لأن الوضيعة اسم لجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال، وإن كان المالان متساويين فشرطا لأحدهما فضلا على ربح ينظر إن شرطا العمل عليهما جميعا جاز، والربح بينهما على الشرط."
(کتاب الشرکة، فصل فی بیان شرائط جواز انواع الشرکة، ج:6، ص:62، ط:دار الکتب العلمیة۔بیروت)
البحرالرائق میں ہے:
"(قوله وتصح مع التساوي في المال دون الربح وعكسه) وهو التفاضل في المال والتساوي في الربح، وقال زفر والشافعي لا يجوز؛ لأن التفاضل فيه يؤدي إلى ربح ما لم يضمن فإن المال إذا كان نصفين والربح أثلاثا فصاحب الزيادة يستحقها بلا ضمان إذ الضمان بقدر رأس المال؛ لأن الشركة عندهما في الربح كالشركة في الأصل ولهذا يشترطان الخلط فصار ربح المال بمنزلة نماء الأعيان فيستحق بقدر الملك في الأصل ولنا قوله - عليه السلام - «الربح على ما شرطا والوضيعة على قدر المالين» ولم يفصل؛ ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة."
(كتاب الشركة، شركة العنان، ج5، ص188، ط:دار الكتاب الإسلامي)
مبسوط سرخسی میں ہے:
"والشريكان في العمل إذا غاب أحدهما أو مرض أو لم يعمل وعمل الآخر فالربح بينهما على ما اشترطا؛ لما روي أن رجلاً جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: أنا أعمل في السوق ولي شريك يصلي في المسجد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لعلك بركتك منه"، والمعنى أن استحقاق الأجر بتقبل العمل دون مباشرته والتقبل كان منهما وإن باشر العمل أحدهما، ألا ترى أن المضارب إذا استعان برب المال في بعض العمل كان الربح بينهما على الشرط أو لا ترى أن الشريكين في العمل يستويان في الربح وهما لا يستطيعان أن يعملا على وجه يكونان فيه سواء، وربما يشترط لأحدهما زيادة ربح لحذاقته وإن كان الآخر أكثر عملاً منه، فكذلك يكون الربح بينهما على الشرط ما بقى العقد بينهما وإن كان المباشر للعمل أحدهما ويستوي إن امتنع الآخر من العمل بعذر أو بغير عذر لأن العقد لا يرتفع بمجرد امتناعه من العمل واستحقاق الربح بالشرط في العقد."
(كتاب الشركة، استحقاق الربح في طريق الشركة، ج :11، ص:158/157، ط:دارالمعرفة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605101498
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن