بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

دو شخصوں کا غصے میں ایک دوسرے سے قرآن اٹھونا


سوال

دو شخصوں کا غصہ میں ایک دوسرے سے قرآن اٹھوانا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہےذاتی لڑائی جھگڑوں میں دوشخصوں کا جذبات اور غصہ میں آکر ایک دوسرے سے قرآن اٹھوانا یہ قرآن کے بےادبی کے زمرے میں آتا ہے، اور نہ ہی قرآن اس قسم کے کاموں کے نازل کیا گیا ہے۔بہرصورت مذکورہ معاملہ میں فریقین نے اگر ماضی کے کسی معاملہ پر قرآن اٹھوایا ہو تو جو حق و سچ پر ہو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، اور جس نے جھوٹا قرآن اٹھایا وہ سخت گناہ گار ہوگا، لہذا وہ توبہ استغفار کرے۔

اور اگرفریقین نے آئندہ کے لیے کسی کام کے کرنے/نہ کرنے کے حوالہ سے قرآن اٹھایا اور اس کے ساتھ قسم کے الفاظ استعمال نہیں کیے، مثلاً فقط یہ کہا کہ "میں فلاں کام نہیں کروں گا" تو ان الفاظ سے شرعاً کوئی قسم منعقد نہیں ہوگی۔ اور اگر  قرآن مجید اٹھاکر الفاظِ قسم  کہے ہیں ( جیسے   میں  اللہ  کی  قسم کھاتا ہوں یا میں قرآن  کی قسم  کھاتا ہوں  کہ فلاں کام کروں گا/ نہیں کروں گا)  توقسم کھانے  والے  کی قسم شرعی طور  پر  منعقد ہوجاتی  ہے، لہذا خلاف ورزی کی صورت قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔ 

 قسم کا کفارہ یہ ہے کہ اگر مالی استطاعت ہے تو دس غریبوں کو کپڑوں کا جوڑا دے، یا دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کے برابر رقم دے دے، یا ایک ہی مسکین کو دس دن تک دو وقت کھانا کھلائے یا اسے دس دن تک روزانہ ایک ایک صدقہ فطر کی رقم دیتارہے، اور اگر اتنی استطاعت نہ ہو تو پھر لگاتار  تین دن روزے رکھے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"محض قرآن مجید ہاتھ میں لے کربات کہنے سے قسم نہیں ہوجاتی،جب تک لفظِ قسم نہ کہے۔"

(کتاب الایمان والنذور، باب الایمان ، ج:14،ص:42، ط: ادارۃالفاروق)

فتاوی مفتی محمودؒ میں ہے:

"صرف قرآن مجید کو ہاتھ میں اٹھا کر کوئی کلمہ کہے اس سے حلف نہیں ہوتا،البتہ اگر وہ بات غلط ہوتو جھوٹ کا گناہ ہوگا،جس سے استغفار کرنا لازم ہے۔"

(کتاب الایمان والنذور ، ج:8،ص:452،ط: اے مشتاق پریس لاہور)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله وقال العيني إلخ) عبارته: وعندي لو حلف بالمصحف أو وضع يده عليه وقال: وحق هذا فهو يمين ولا سيما في هذا الزمان الذي كثرت فيه الأيمان الفاجرة ورغبة العوام في الحلف بالمصحف اهـ وأقره في النهر. وفيه نظر ظاهر إذ المصحف ليس صفة لله تعالى حتى يعتبر فيه العرف وإلا لكان الحلف بالنبي والكعبة يمينا لأنه متعارف."

(‌‌كتاب الأيمان،ج:3،ص:713،ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"قال: محمد - رحمه الله تعالى - في الأصل لو قال: والقرآن لا يكون يمينا ذكره مطلقا، والمعنى فيه، وهو أن الحلف به ليس بمتعارف فصار كقوله: وعلم الله، وقد قيل هذا في زمانهم أما في زماننا فيكون يمينا، وبه نأخذ، ونأمر، ونعتقد، ونعتمد، وقال: محمد بن مقاتل الرازي لو حلف بالقرآن قال: يكون يمينا، وبه أخذ جمهور مشايخنا رحمهم الله تعالى كذا في المضمرات."

(کتاب الأیمان،الباب الثانی فیما یکون یمیناوما لایکون یمینا،ج:2، ص: 53،ط:دار الفکر بیروت)

و فيه أيضاً:

" الفصل الثاني في الكفارة: وهي أحد ثلاثة أشياء إن قدر عتق رقبة يجزئ فيها ما يجزئ في الظهار أو كسوة عشرة مساكين لكل واحد ثوب فما زاد وأدناه ما يجوز فيه الصلاة أو إطعامهم والإطعام فيها كالإطعام في كفارة الظهار هكذا في الحاوي للقدسي .وعن أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى إن أدنى الكسوة ما يستر عامة بدنه حتى لا يجوز السراويل وهو صحيح كذا في الهداية . فإن لم يقدر على أحد هذه الأشياء الثلاثة صام ثلاثة أيام متتابعات."

(كتاب الطلاق، الفصل الثاني في الكفارة، ج:2، ص:61، ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں