کل رات میں شراب کے نشے میں تھا، فون پر میرا اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑا چل رہا تھا، تو میں نے یہ الفاظ کہے"تجھے آزادی چاہیے نا، چل صحیح ہے میں تجھے طلاق دیتا ہوں"، پھر میں نے کہا، "اب تجھے آزادی مل گئی ہے نا، میں نے دے دی ہے نا تجھے طلاق؟ یہ کہنے کے بعد جب میں نے دیکھا تو کال کٹ چکی تھی، مجھے معلوم نہیں تھا کہ بیوی نے یہ الفاظ سنے یا نہیں؟تقریبًا ایک سال پہلے میں نشے کی حالت میں غصے میں تھا، تو میں نے طلاق کے الفاظ کہے تھے، یہ مجھے یا د نہیں کہ ایک بار کہے یا دوبار کہے تھے، دار العلوم کورنگی سے ہم نے فتویٰ لیا تھا، تو انہوں نے بتایا تھا کہایک طلاق ہوئی ہے، پھر میں نے رجوع کیا تھا، اور آج سے آٹھ سے نو سال پہلے میں نے طلاق نامہ پر دستخط کئے تھے، اس پر ایک طلاق لکھی ہوئی تھی، اس کے بعد ہم نے دوبارہ نکاح کیا تھا، اب سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی ہمارا نکاح برقرار ہے؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیوی پر مجموعی طور پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں، بیوی شوہر پر حرمتِ مغلظہ سے حرام ہوچکی ہے ،اب رجوع جائز نہیں اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا ، مطلقہ عدت (تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو وضع حمل تک)گزارکر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی، نیزطلاق کے واقع ہونے کے لیے شوہر کا بیوی کی طرف نسبت کرکے طلاق دینا کافی ہوتا ہے، بیوی کا سننا یا اس کا موجود ہونا ضروری نہیں ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية. و لا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولًا بها أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير. و يشترط أن يكون الإيلاج موجبًا للغسل و هو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."
(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:473، ط: دار الفكر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل -:{فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}[البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."
(کتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"وقوله: (ركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية … وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته، فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظًا لا صريحًا ولا كنايةً لايقع عليه."
(کتاب الطلاق، رکن الطلاق، ج:3، ص:230، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100559
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن