کیا دو طلاق دینے سے بیوی حرام ہو جاتی ہے؟ اگر دوبارہ نکاح کرلیں تو مسئلہ حل ہوگا؟
طلاق کی دو قسمیں ہیں :
۱۔ طلاق صریح:جوکہ صریح الفاظ سے دی گئی ہو،اگر شوہر نے صریح الفاظ سے اپنی بیوی کو ایک طلاق یا دو طلاقیں دی ہوں تو اس کا حکم یہ ہے کہ عدت (حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش سے قبل اور حمل نہ ہونے کی صورت میں تین ماہ واریاں مکمل ہونے سے قبل )کے دوران شوہر اگر رجوع کرنا چاہے تو رجوع کر سکتا ہے۔ اگر رجوع کیے بغیر عورت کی عدت گزر گئی تو نکاح ٹوٹ جائے گاپھر باہمی رضامندی سے نیا مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔
۲۔ طلاق بائن:جو کنائی الفاظ میں دی گئی ہو، اگر شوہر نے کنائی الفاظ سے طلاق دی ہو تو اس صورت میں نکاح ختم ہوجاتا ہے ،شوہر کو عدت میں بھی رجوع کا حق نہیں ہوتا، البتہ عدت کے اندر یا عدت کے بعد باہمی رضامندی سےنیامہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔
مذکورہ دونوں صورتوں میں سے کسی بھی صورت میں اگر شوہر نے دو طلاقیں دے دیں تو اب آئندہ کے لیے اس کے پاس صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا۔
ارشاباری تعالی ہے:
"(اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ) [البقرة:229]"
ترجمه:’’طلاق (صرف) دو بار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دے دی جائے تو) پھر (عورتوں کو) یا تو بطریق شائستہ (نکاح میں) رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا۔‘‘
مذکورہ آیت کی تفسیر مولانا محمد ادریس کاندہلویؒ لکھتے ہیں:
"تفسير:’’قال تعالی: الطلاق مرتن۔۔ الی۔۔ باحسان۔‘‘
گزشتہ آیت میں مرد کے لیے حق رجعت کا بیان تھا ،اب اس آیت میں یہ بتلاتے ہیں کہ رجعت کا حق کب تک رہتا ہے ،چنانچہ فرماتے ہیں کہ جس طلاق کے بعد رجعت ہوسکتی ہے وہ دو مرتبہ ہے پھر دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد تم کو دو اختیار ہیں :یا تو دستور اور حسن اسلوب کے ساتھ روک لو یعنی رجعت کرکے اس کو اپنے نکاح میں رہنے دو اور یا حسن اسلوب کے ساتھ اس کو چھوڑ دو کہ اس کی عدت گذر جائے اور جہاں چاہے وہ نکاح کرلے تم اس میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالو۔"
(معارف القرآن:ازمولانا محمدادریس کاندھلوی، ج:1،ص:431،ط:مکتبۃ المعارف ، شہداد پور)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية...إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها."
(كتاب الطلاق،الباب السادس فی الرجعہ،ج:1،ص:470،ط:رشیدیہ)
فتاوی شامی میں ہے :
"(وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه)....(بعد الدخول حقيقة، أو حكما) أسقطه في الشرح، وجزم بأن قوله الآتي " إن وطئت " راجع للجميع (ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية...(و) العدة (في) حق (من لم تحض) حرة أم أم ولد (لصغر) بأن لم تبلغ تسعا (أو كبر).....(ثلاثة أشهر) بالأهلة لو في الغرة وإلا فبالأيام بحر وغيره (إن وطئت) في الكل ولو حكما كالخلوة ولو فاسدة كما مر...(و) العدة (للموت أربعة أشهر) بالأهلة لو في الغرة كما مر (وعشر) من الأيام بشرط بقاء النكاح صحيحا إلى الموت (مطلقا) وطئت أو لا ولو صغيرة، أو كتابية تحت مسلم ولو عبدا فلم يخرج عنها إلا الحامل....(قوله: فلم يخرج عنها إلا الحامل) فإن عدتها للموت وضع الحمل كما في البحر، وهذا إذا مات عنها وهي حامل، أما لو حبلت في العدة بعد موته فلا تتغير في الصحيح."
(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:504-510، ط: سعيد)
وفیہ ایضاً:
"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.
(قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح."
(ج:3، ص:397، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100332
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن