میں نے اپنی بیوی کو دو بار زبان سے موبائل فون پر طلاق دی، میں نے تیسری طلاق نہیں دی، اس کے دس دن بعد میں نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا ،لیکن گھر والوں کے دباؤ کی وجہ سے میں نے 2 دن بعد اسٹامپ پیپر پر دستخط کردیے اور میں دل سے طلاق نہیں دینا چاہتا تھا اس لیے میں نے تیسری بار زبان سے اقرار نہیں کیا تھا،اس کے بعد میں نے ایک مولانا صاحب سے معلوم کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اسلام میں پیپر پر طلاق کی اہمیت نہیں ہے ،زبان سے اقرار کرنا ضروری ہے ،آپ نے بیوی کو 2 بار طلاق منہ سے دینے کے بعد رجوع کرلیا تو رجوع ہوگیا ہے، اب ہم میاں بیوی دو ماہ سے ساتھ رہ رہے ہیں۔ کیا ہمارا رجوع ہوا ہے کہ نہیں ہوا؟ اور میں اپنی بیوی کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں ،اس مسئلے کا حل بتائیں۔
واضح رہے کہ جس طرح زبان سے طلاق بولنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے اسی طرح طلاق لکھ کر دینے سے یا لکھے ہوئے پر دستخط کرنے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔
لہذا صورت ِ مسئولہ میں اگر سائل نے اپنی بیوی کو زبانی طور پر دو طلاق رجعی دی ہوں اور ان کے بعد رجوع کرلیا تھا تو اس سے اس کی بیوی پر دو طلاقیں واقع ہوگئی تھیں اور اس کے بعد رجوع کرنے سے دونوں کا نکاح بدستور برقرار رہا ،البتہ اس کے دس دن بعد گھر والوں کے دباؤ کی وجہ سے سائل نے جب اسٹامپ پیپر پر دستخط کیے ہیں اور اسٹامپ پیپر پر تیسری طلاق بھی درج تھی تو اس سے سائل کی بیوی پر مجموعی طور پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں،نکاح ختم ہوچکا ہے ،اب رجوع یا تجدید ِ نکاح کی گنجائش نہیں ،اس کے بعد دونوں کا میاں بیوی کی حیثیت سے ساتھ رہنا جائز نہیں تھا ،جتنا عرصہ ساتھ رہے اس پر توبہ واستغفار کریں ۔
البتہ عدت گزرنے کے بعد اگر بیوی دوسری جگہ نکاح کرلے اور جسمانی تعلق قائم ہوجائے اور اس کے بعد اس کو اس کا شوہر طلاق دے دیں یا شوہر کا انتقال ہوجائے تو بیوی عدت گزار کر سائل سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے ۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب، ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابة أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخة وابعث بها إليها".
(کتاب الطلاق، مطلب فی الطلاق بالکتابة، ج:3، ص:246، ط:سعید)
و فیه أیضاً:
"و أراد بما اللفظ أو ما يقوم مقامه من الكتابة المستبينة أو الإشارة المفهومة."
(کتاب الطلاق، مطلب فی الطلاق بالکتابة، ج:3، ص:246، ط:سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے :
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز."
(کتاب الطلاق، الباب السادس، فصل فیما تحل به الطلقة،ج:1،ص:473، ط: رشیدیة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607102974
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن