بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

دودھ پیتا بچہ دودھ پیتے ہوئے یا پینے کے بعد اس کو نکال دے تو کیا حکم ہے؟


سوال

اگر چار ماہ کا دودھ پیتا بچہ دودھ پیتے ہی اگلے لمحے دودھ واپس نکال دے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے یعنی وہ اگر کپڑے پر لگ جائے تو وہ پاک ہے یا نہیں؟ یا پھر دودھ پینے کے دوران ہی واپس نکال دے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اگر کپڑے پر تھوڑا بھی لگ جائے تو وہ پاک ہے یا نہیں؟ اور اگر ناپاک ہے تو کتنی مقدار کی وجہ سے ناپاکی کے حکم میں ہے؟ اور اسے پاک کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ (دودھ ماں کا ہو یا ڈبے کا دونو ں کی وضاحت کر دیں ) اور بچہ اگر بار بار کر دیتا ہو تو بھی یہی حکم ہوگا؟

جواب

دودھ پیتا بچہ اگر  دودھ پیتے ہوئے یا دودھ پینے کے بعد   قے (الٹی) کردے،  اور قے منہ بھر کر ہو تو اس کا حکم بڑے آدمی کی قے کی مانند ہوگا، پس اگر جسم یا کپڑے پر لگ جائے اور مقدار میں ایک درہم سے زائد ہو تو اس کا پاک کرنا ضروری ہے، پاک کیے بغیر ان کپڑوں میں نماز نہ ہوگی۔ اور اگر ایک درہم یا اس سے کم ہو اور اس کے ساتھ نماز پڑھ لی تو نماز ادا ہوجائے گی۔

اگر قے (الٹی) منہ بھر کر نہ ہو خواہ بالغ کی ہو یا نابالغ کی تو وہ ناپاک نہیں ہے۔

البتہ  اگر بچہ دودھ پینے کے دوران (حلق سے نیچے دودھ اتارے بغیر) منہ سے ہی دودھ نکال دے تو وہ قے کے حکم میں نہیں ہے، اس کے کپڑے پر لگنے سے کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے۔

ملحوظ رہے کہ دودھ ماں کا ہو یا ڈبے کا ہو، قے کے حکم میں اس سے فرق نہیں آئے گا۔

بہشتی زیور  میں ہے:

’’چھوٹا لڑکا جو دودھ نکالتا ہے اس کا حکم یہ ہے کہ اگر قے بھر منہ نہ ہو تو نجس نہیں ہے اور اگر بھر منہ ہو تو نجس ہے، اگر بے اس کے دھوئے نماز پڑھے گی نماز نہ ہوگی‘‘. 

( بہشتی زیور :صفحہ 47)

تنوير الأبصار مع الدر المختار:

"(وَ) يَنْقُضُهُ (قَيْءٌ مَلَأَ فَاهُ) بِأَنْ يُضْبَطَ بِتَكَلُّفٍ (مِنْ مِرَّةٍ) بِالْكَسْرِ: أَيْ صَفْرَاءَ (أَوْ عَلَقٍ) أَيْ سَوْدَاءَ؛ وَأَمَّا الْعَلَقُ النَّازِلُ مِنْ الرَّأْسِ فَغَيْرُ نَاقِضٍ (أَوْ طَعَامٌ أَوْ مَاءٌ) إذَا وَصَلَ إلَى مَعِدَتِهِ وَإِنْ لَمْ يَسْتَقِرَّ، وَهُوَ نَجَسٌ مُغَلَّظٌ، وَلَوْ مِنْ صَبِيٍّ سَاعَةَ ارْتِضَاعِهِ، هُوَ الصَّحِيحُ لِمُخَالَطَةِ النَّجَاسَةِ، ذَكَرَهُ الْحَلَبِيُّ". (١ / ١٣٧ - ١٣٨)

حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح:

"وكذا الصبي إذا ارتضع وقاء من ساعته لايكون نجساً، والصحيح أنه حدث ونجس في الكل، كما في الحلبي. قيل: وقول الحسن، هو المختار". ( ١/ ٨٨)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق:

"وَصَرَّحُوا فِي بَابِ الْأَنْجَاسِ أَنَّ نَجَاسَةَ الْقَيْءِ مُغَلَّظَةٌ وَفِي مِعْرَاجِ الدِّرَايَةِ وَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَ قَاءَ طَعَامًا أَوْ مَاءً فَأَصَابَ إنْسَانًا شِبْرًا فِي شِبْرٍ لَايَمْنَعُ، وَفِي الْمُجْتَبَى الْأَصَحُّ أَنَّهُ لَايَمْنَعُ مَا لَمْ يَفْحُشْ. اهـ. وَهُوَ صَرِيحٌ فِي أَنَّ نَجَاسَتَهُ مُخَفَّفَةٌ وَحَمَلَهُ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ عَلَى مَا إذَا قَاءَ مِنْ سَاعَتِهِ، وَهُوَ غَيْرُ صَحِيحٍ؛ لِأَنَّهُ حِينَئِذٍ طَاهِرٌ، كَمَا قَدَّمْنَا أَنَّهُ غَيْرُ نَاقِضٍ "( ١/ ٣٧)

الموسوعة الفقهية الكويتية:

وَفِي فَتَاوَى نَجْمِ الدِّينِ النَّسَفِيِّ: "صَبِيٌّ ارْتَضَعَ ثُمَّ قَاءَ فَأَصَابَ ثِيَابَ الأُْمِّ: إِنْ كَانَ مِلْءَ الْفَمِ فَنَجِسٌ، فَإِذَا زَادَ عَلَى قَدْرِ الدِّرْهَمِ مَنَعَ الصَّلاَةَ فِي هَذَا الثَّوْبِ، وَرَوَى الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ: أَنَّهُ لاَ يَمْنَعُ مَا لَمْ يَفْحُشْ؛ لأَِنَّهُ لَمْ يَتَغَيَّرْ مِنْ كُل وَجْهٍ وَهُوَ الصَّحِيحُ". (٣٤ / ٨٦) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201018

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں