بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

دکان میں موجود سامان تجارت کی زکوۃ کا حکم


سوال

دکان کی زکوۃ کیسے نکالوں ؟

جواب

واضح رہے کہ دکان کی مالیت پر تو زکوۃ نہیں ،البتہ اس میں موجود سامانِ تجارت اگر نصاب کے بقدر یا اس سے زیادہ ہو اور اس پر سال گزر گیا ہو تو سال پورا ہونے پر جو سامان موجود ہو اس کی مالیت یعنی مارکیٹ کی  موجودہ قیمت(قیمت فروخت کے اعتبار سے) معلوم کرکے اس مالیت کا چالیسواں حصہ ( ڈھائی فیصد ) رقم  زکوۃ میں ادا کرے اور اسی طرح اس مال کے علاوہ جو نقد رقم یاسونا اور چاندی ملکیت میں ہو اس کا بھی چالیسواں حصہ ( ڈھائی فیصد) زکوۃ ادا کرنا ضروری ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية."

(كتاب الزكاة ، الباب الثالث ،الفصل الثاني في العروض ،179/1،ط: رشيدية)

مبسوط للسرخسی میں ہے:

"وكذلك زكاة مال التجارة تجب بالقيمة والكلام فيه في فصول (أحدها) أن الزكاة تجب في عروض التجارة إذا حال الحول عندنا."

(كتاب الزكاة،باب زكاة المال ،190/2،ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407102055

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں