میں نے اپنے ایک امریکن عزیز سے قرض لیا تھا، تو اُس نے مجھے پانچ ہزار ڈالر دیے اور کہا کہ واپس ڈالر میں ہی دینا، جبکہ اس وقت ڈالر ہم نے 149 روپے کے ریٹ سے پاک کرنسی میں تبدیل کروایا تھا جو کوئی ساڑھے سات لاکھ روپے بنےتھے۔ اب جب کہ میرا وہ عزیز پھر پاکستان آیا ہوا ہے، تو اسے ہم رقم واپس کرنا چاہتے ہیں، تو کیا پاک کرنسی میں دیں گے؛ کیوں کہ ہم نے تو وہ رقم پاک کرنسی میں سیل کرکے استعمال کی تھی، یا ڈالر میں واپس کریں گے جو اب پاک کرنسی میں ڈبل رقم بنتی ہے؟
واضح رہے کہ قرض کا حکم یہ ہے کہ جس کرنسی میں دیا جائے، مقروض اُسی کرنسی کے حساب سے اسے لوٹانے کا پابند ہوتا ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں چوں کہ آپ نے اپنے عزیز سے پانچ ہزار ڈالر قرض لیے تھے، تو اب آپ کے ذمہ پانچ ہزار ڈالر ہی لوٹانا واجب ہے، اس میں پاکستانی کرنسی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔اگر پاکستانی کرنسی میں ادا کرنا ہو تو ادائیگی کے وقت پانچ ہزار ڈالر کی جو پاکستانی کرنسی ہے وہ ادا کرنا درست ہوگا بشرطیکہ دوسرا فریق بھی راضی ہو۔
بدائع الصنائع ميں ہے:
"وأما حكم القرض فهو ثبوت الملك للمستقرض في المقرض للحال، وثبوت مثله في ذمة المستقرض للمقرض للحال، وهذا جواب ظاهر الرواية."
(کتاب القرض، فصل في حكم القرض، ٧/ ٣٩٦، ط:دار الكتب العلمية)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصا."
(كتاب الشركة، مطلب في قبول قوله دفعت المال بعد موت الشريك أو الموكل، ٤/ ٣٢٠، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603102760
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن