اگر کسی جوان عاقل بالغ لڑکی کو کوئی مرد بھگا کر لے گیا، اور پھر اس سے زبر دستی کے طور پرنکاح بھی کیا، اور اس کے بعد ایک آدمی نے عدالت یہ مقدمہ درج کیا، اور عدالت میں اس آدمی نے یہ جھوٹ بولا کہ میرا نکاح اس لڑکی کے ساتھ ہے جس کو یہ بھگا کر لایا ہے، اور اس کے بعد جو آدمی لڑکی کو بھگا کر لے گیا تھا اس نے اس لڑکی کو طلاق مغلظہ دے دی اپنی رضامندی سے، تو کیا اب جس آدمی نے جھوٹ بولا عدالت میں کیا وہ اس لڑکی کے ساتھ اس کی عدت پوری ہونے کے بعد نکاح کر سکتا ہے یا نہیں ؟
بصورتِ مسئولہ اگر واقعۃً پہلے شوہر نے اپنی بیوی کو طلاقِ مغلظہ دیدی، تو مذکورہ خاتون مکمل عدت گزارنے کے بعد اپنی رضامندی کے ساتھ کسی بھی شخص سے نکاح کرسکتی ہے، عدت کے دوران کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنا شرعاً باطل ہونے کی وجہ سے منعقد نہیں ہوگا۔
فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:
"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج. سواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة أو دخول في نكاح فاسد أو شبهة نكاح، كذا في البدائع."
(كتاب النكاح، القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير، ج:1، ص:280، ط:مكتبه رشيديه)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144208200871
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن