میری ایک پراپرٹی ہے جو غیر آباد ہے، میرا ایک دوست ہے جس سے یہ معاہدہ ہورہا ہے کہ وہ اس پراپرٹی میں تعمیرات کروائے گا اورکرائے میں 50 فیصد کا پارٹنر بن جائے گا اور اس وقت تک آدھا کرایہ وصول کرے گا جب تک ہم اسے تعمیرات پر لگنے والے پیسے واپس نہیں کردیتے، کیا یہ معاملہ شرعا درست ہے؟
سوال میں ذکر کردہ شرکت کے معاہدے کی صورت ناجائز ہے؛ اس لیے کہ شرکت کے درست ہونے کے لیے ہر شریک کے سرمایہ کا نقد ہونا ضروری ہے، اگر اس طرح کا معاہدہ کر کے آپ کے دوست نے آپ کی زمین پر تعمیرات کردیں تو بھی وہ اس زمین یا تعمیرات میں شریک نہیں بنے گا، بلکہ مکمل پراپرٹی تعمیرات سمیت آپ ہی کی ملکیت شمار ہوگی، اس لیے ایسی صورت میں آپ کے دوست کو کرایہ وصول کرنے کا حق نہیں ہوگا، البتہ آپ کے دوست کو تعمیرات پر ہونے والے خرچے اور تعمیرات کے کام کی اجرتِ مثل (یعنی اس جیسے کام کی مارکیٹ میں جتنی اجرت دینے کا رواج ہو )، ہی آپ سے وصول کرنے کا حق ہوگا۔
اس کے جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ کا دوست ، آپ سے آپ کی غیر آباد آدھی پراپرٹی (زمین) نقد رقم میں خرید لے ، اوررقم آپ کو دے دے؛ تاکہ زمین میں آپ دونوں آدھے آدھے کے شریک ہوجائیں ، اس کے بعد آپ دونوں نقد رقم ملا کر اس مشترکہ زمین پر مشترکہ رقم سے تعمیر کریں ،اور پھر نفع (بشمول کرائے) اور نقصان میں آپ دونوں شریک ہوں گے ۔ نیز ایک صورت جواز کی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آپ اپنے دوست کو اپنی پراپرٹی میں تعمیرات کروانے کا ٹھیکہ دے دیں اور اس تعمیرات کروانے کی اجرت آپ دونوں باہمی رضامندی سے مقرر کرلیں، پھر تعمیرات ہونے کے بعد اگر آپ اپنے دوست کی رضامندی سے طے شدہ اجرت کی رقم کے عوض تعمیرات میں سے کوئی فلیٹ یا پورشن وغیرہ دینا چاہیں تو یہ جائز ہوگا، جو فلیٹ یا پورشن آپ تعمیرات کی طے شدہ اجرت کے عوض دوست کو دے دیں گے تو وہ فلیٹ یا پورشن آپ کے دوست کی ملکیت شمار ہوگا اور اس فلیٹ یا پورشن کا کرایہ وصول کرنا اس کے لیے جائز ہوگا۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ اسی تعمیرات کے فلیٹ یا پورشن کو ابتداء ہی تعمیرات کی اجرت کے طور پر مقرر کرنا جائز نہیں ہوگا، کیوں کہ فلیٹ یا پورشن کو ابتدا سے ہی اجرت مقرر کرنے کی صورت میں یہ معاملہ " قفیز الطحان" میں داخل ہوجائے گا،یعنی مذکورہ معاملے میں" اجرت من جنس العمل" طے کیے جانے کی وجہ سے یہ اجارہ فاسدہ ہوگا، اس لیے کہ جو چیز فی الحال موجود نہیں، بلکہ ٹھیکے دار کے عمل ( تعمیرات) سے حاصل ہوگی یعنی فلیٹ ، پورشن وغیرہ، اس کوبطور اجرت مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔
جامع الفصولین میں ہے:
"صل" : دفع إليه أرضاً على أن يبني فيها كذا كذا بيتاً وسمى طولها وعرضها وكذا كذا حجرة على أن ما بني فهو بينهما وعلى أن أصل الدار بينهما نصفان فبناها كما شرط فهو فاسد وكله لرب الأرض وعليه للباني قيمة ما بنى يوم بنى وأجر مثل فيما عمل وهي مسألة الدسكرة بناء يشبه القصر حواليه بيوت يكون للمولك."
(جامع الفصولين، الفصل الثالث والثلاثون أحكام العمارة في ملك الغير، 2/ 161، ط: إسلامي کتب خانه)
بدائع الصنائع میں ہے:
"منها: (شرائط جواز الشركة) أن يكون الربح معلوم القدر ... وأن يكون جزءً شائعًا في الجملة لا معينًا ... أما الشركة بالأموال فلها شروط، منها أن يكون رأس المال من الأثمان المطلقة ... وهي الدراهم والدنانير عنانًا كانت الشركة أو مفاوضة ... ولو كان من أحدهما دراهم ومن الآخر عروض فالحيلة في جوازه أن يبيع كل واحد منها نصف ماله بنصف دراهم صاحبه ويتقابضا ويخلطا جميعًا حتى تصير الدراهم بينهما والعروض بينهما ثم يعقدان عليهما عقد الشركة فيجوز."
( كتاب الشركة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، 6/ 59، ط: سعيد)
شرح المجلۃ (سلیم رستم باز) میں ہے:
"يصح بيع حصة شائعة معلومة كالنصف والثلث والعشر من عقار مملوك قبل الإفراز."
(البيوع، الباب الثاني،الفصل الثاني في مايجوز بيعه ومالايجوز، 1/ 83،رقم المادة:214، ط: فاروقيه كوئٹه)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"صورة قفيز الطحان أن يستأجر الرجل من آخر ثوراً ليطحن به الحنطة على أن يكون لصاحبها قفيز من دقيقها أو يستأجر إنساناً ليطحن له الحنطة بنصف دقيقها أو ثلثه أو ما أشبه ذلك فذلك فاسد، والحيلة في ذلك لمن أراد الجواز أن يشترط صاحب الحنطة قفيزاً من الدقيق الجيد ولم يقل من هذه الحنطة، أو يشترط ربع هذه الحنطة من الدقيق الجيد؛ لأن الدقيق إذا لم يكن مضافاً إلى حنطة بعينها يجب في الذمة والأجر كما يجوز أن يكون مشاراً إليه يجوز أن يكون ديناً في الذمة، ثم إذا جاز يجوز أن يعطيه ربع دقيق هذه الحنطة إن شاء. كذا في المحيط."
(کتاب الإجارۃ، الباب الخامس عشر في بیان ما یجوز من الإجارۃ و ما لا یجوز،ج:4،ص:444،ط:رشیدیة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144606102380
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن