بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو الحجة 1445ھ 02 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوسرے ملک میں مقیم افراد اپنےبچوں کاصدقہ فطر کس قیمت کے حساب سے ادا کریں گے ؟


سوال

 ایک آدمی سعودی یا دوبئی میں کام کرتا ہے ،وہ اپنے بچوں کا فطرانہ اس ملک کے حساب سے دےگایا پاکستانی حساب سے؟

جواب

واضح رہےکہ صدقہ فطر کی مقدار گندم کے حساب سے  پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت  ہے اور کھجور، جو اور کشمش کے حساب سے ساڑھے تین کلو  کھجور، جَو  اور کشمش  ہے، چاہےکہیں بھی ادا کیا جائے، اور اگر صدقۂ فطر میں مذکورہ اشیاء کی قیمت ادا کرنی ہے تو جہاں ادائیگی کرنے والا موجود ہے  وہاں کی قیمت کا اعتبار ہوگا، لہذاجوشخص پاکستان سےباہرکسی دوسرےملک(سعودی یادوبئی وغیرہ)میں مقیم ہواور وہ عید الفطر بھی وہیں کررہاہوتو  اس پر اپنا اور اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر  اس ملک(سعودی یادبئی وغیرہ) کے نرخ کے حساب سے دینا لازم ہوگا۔

البتہ اس شخص کی اہلیہ اور  بالغ بچے جو کہ پاکستان میں ہیں، ان پر ان کا اپنا صدقہ فطر  پاکستان کے نرخ کے مطابق لازم ہوا تھا، لہذا وہ خود پاکستان میں پاکستان کی قیمت کے حساب سے دے سکتے ہیں،  اور اگرکوئی دوسرا  شخص یا والد  ان کی طرف سے ادا کرنا چاہتے ہیں تو ایسی قیمت لگانا بہتر ہے جس میں فقراء کا زیادہ فائدہ ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح، وأن رءوسهم تبع لرأسه.

(قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه (قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية، كما في الشرنبلالية، وهو المذهب كما في البحر؛ فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه".

 (كتاب الزكاة، فروع في مصرف الزكاة، 2/ 355، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" ثم المعتبر في الزكاة مكان المال حتى لو كان هو في بلد، وماله في بلد آخر يفرق في موضع المال، وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح، كذا في التبيين. وعليه الفتوى، كذا في المضمرات". 

(كتاب الزكاة، الباب السابع، 1/ 190، ط: دارالفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101897

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں