بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی رضامندی کا حکم


سوال

 دار الاسلام میں رہنے والے ایک مسلمان شخص کی ایک بیوی اور 2 بچے ہیں، شادی گزشتہ 9 سال سے اتار چڑھاؤ کے ساتھ چل رہی ہے، مرد نے عورت کو الگ گھر فراہم کر دیا ہے، اب اسے لگتا ہے، کہ اسے دوسری بیوی کی شدیدضرورت ہے، وہ اپنی پہلی بیوی کو کسی غلطی کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا یعنی وہ پہلی بیوی سے مطمئن ہے، لیکن پھر بھی وہ کہتا ہے، کہ اسے دوسری بیوی کی ضرورت ہے، اس کی اشد ضرورتیں ہیں:

1) ذہنی: اسے لگتا ہے کہ اس کی پہلی بیوی ذہنی طور پر اس کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی ہے، اس کا ذکر اس نے اپنے دوستوں اور گھر والوں سے اور اپنی پہلی بیوی سے بھی کیا ہے، وہ ایک انتہائی قابل آدمی ہے، جو دنیاوی تعلیم اور دینی علوم سے بخوبی واقف ہے، جب کہ اس کی شریک حیات (پہلی بیوی) کے پاس نہ تو دنیاوی تعلیم اچھی ہے اور نہ ہی دینی علوم، وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ اس کی دنیاوی کامیابی اس کی وجہ سے رک گئی ہے ،اور وہ اس دنیا میں بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے، اگر اس کے پاس ایک قابل، تعلیم یافتہ، اہل اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا ساتھی ہو ،جو اس کی صلاحیتوں  پر یقین رکھتا ہو (اس کی موجودہ بیوی کے برعکس جو کہ نہیں کرتی، اپنے شوہر  کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی ہے، اور نہ ہی اسے طاقت دیتی ہے جس طرح سیدنا خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے مشکل وقت میں ساتھ دیا تھا)۔

2) جنسی: مرد اس طرح کے کاروبار میں ہے ،کہ اسے روزانہ کی بنیاد پر عورتوں کے ساتھ معاملہ کرنا پڑتا ہے، اور یہ کہ وہاں عورتیں عام طور پر پردہ دار نہیں ہوتیں، اور متقی، مذہبی بھی نہیں ہوتیں، دوسری بات یہ کہ اس آدمی میں فطری طور پر جینز کی وجہ سے جنسی رجحان زیادہ ہے، وہ یہ بات اپنے باپ کی طرف سے کہتا ہے ،کیوں کہ اس کے والد نے ایک بیوی سے دس بچے پیدا کیے، اور یہ جینز کے ذریعے اس کے جسم میں بھی آیا ہے،ان کا کہنا ہے کہ وہ فطری طور پر عام مردوں سے زیادہ خواتین کی طرف راغب ہوتے ہیں، شادی کے پہلے 5 سال اچھے گزرے، جن میں 2 بچوں کی پیدائش ہوئی (پہلا بیٹا پھر ایک بیٹی) اور مالی حالات شروع سے ہی زیادہ اچھے نہیں تھے،  شروع میں مشترکہ خاندانی  ماحول میں رہ رہے تھے، اور مذہبی حوالے سے اتار چڑھاؤ تھے، لیکن پچھلے 3 سالوں سے مرد نے عورت کے لیے الگ رہائش فراہم کی ہے،اور گزشتہ 3 سال سے وہ اپنی پہلی بیوی سے دوسری شادی کے لیے راضی ہونے کی درخواست کر رہا تھا، لیکن وہ قائل نہیں ہوئی، اس لیے اس نےدوسرا شادی کا  فیصلہ کیا ہے  کہ وہ اس کے ساتھ رہے یا نہ رہے، اچھی بات یہ ہے کہ اب وہ پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ دیندار اور پرہیزگار ہے ،اور یہ بھی کہ وہ اپنی پہلی بیوی کو چھوڑنا نہیں چاہتا، کیوں کہ وہ اس کے ساتھ 9 سال سے اچھی پارٹنر ہے، جو کہ ایک طویل عرصہ ہے (لہذا وہ خود بھی) اسے طلاق نہیں دینا چاہتا،وہ اسے طلاق نہیں دے گا، لیکن ہاں اگر وہ اس سے علیحدگی (خلع) کی درخواست کرے گی، تو وہ خوشی خوشی دے گا،  وہ اسے الگ نہیں کرنا چاہتا ،لیکن اگر وہ خود اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ہے،وہ اس کے سوا اور کیا کر سکتا ہے کہ اسے اچھے طریقے سے (سنت کے مطابق) جانے دیا جائے۔

یہاں اہم نکتہ یہ ہے، کہ جب وہ دوسری شادی کرے گا تو وہ کہتی ہے، کہ وہ اسے چھوڑ دے گی، اب اس معاملے میں کیوں کہ وہ اتنا افسردہ اور پریشان ہے، کہ اس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ چاہے وہ اسے چھوڑ کر لے جائے یا دو بچوں کو پیچھے چھوڑ  کر جائے، کیوں کہ وہ دوسری شادی کر رہا ہے، تب بھی وہ ہچکچاہٹ نہیں کرے گا ،اور اپنا منصوبہ تبدیل نہیں کرے گا کہ وہ دوسری شادی  کرے گا حالات جیسے بھی ہوں۔

اس شخص کو اس کی تفصیل کے مطابق ایک عورت کی تجویز ملی، لیکن عورت کو اکیلا شوہر چاہیے یعنی تعدد ازدواج نہ ہو اور وہ چاہتی تھی کہ مرد پہلے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے ،پھر اس سے شادی کر لے، مرد نے انکار کر دیا۔

نیز یہ شخص گزشتہ 3 سال سے اپنی خواہشات پر قابو رکھے ہوئے ہے، تو اس عرصے میں اسے زنا کے کئی مواقع ملے، جہاں اس میں ملوث عورت بھی بخوشی اس بات پر راضی ہو گئی اور  ملوث عورت بہت خوبصورت تھی (مرد کی پہلی بیوی سے زیادہ خوبصورت) اور وہ غیر قانونی، جنسی حرکات اور  بغیر کسی معاوضے کے مرد کے بستر پر آنے پر راضی ہوئی تھی اور اس مقصد کے لیے وہ آئی تھی۔ اس شخص سے ملاقات کی اور اس کے ساتھ کافی وقت تک سفر کیا جہاں اس شخص کو زنا کے گناہ کا موقع ملا ،اور یہ موقع میرے  لیے  سنہری موقع  تھا، الحمدللہ اپنے فضل و کرم سے صرف رب العالمین نے انسان کو اس شرمناک فعل سے بچایا، لیکن سوال یہ ہے ،کہ اگر اس نے کچھ نہ کیا تو وہ کتنی بار بچ پائے گا؟

پہلی بیوی اور اس کے خاندان کے افراد دوسری بیوی کے لیے 'مالی' وجہ کی بنیاد پر متفق نہیں ہیں، ان کا کہنا ہے ،کہ یہ شخص مالی طور پر زیادہ مستحکم نہیں ہے، اس کے پاس اپنا گھر نہیں ہے (ایک الگ کرائے کے اپارٹمنٹ میں رہتا ہے) اور وہ کرائے پر اپنی پہلی بیوی اور بچوں کو وہ تمام سہولتیں نہیں دے سکتا ، جو وہ اپنی دادی (نانی) کے گھر میں لطف اندوز ہو سکیں، مالی وجہ کے علاوہ ان کے پاس کوئی بڑی وجہ نہیں ہے،  سوائے اس کے کہ پہلی بیوی یہ بھی کہتی ہے کہ اس آدمی کا میرے ساتھ سلوک اچھا نہیں ہے ،وہ ہمیشہ مجھ سے دوسری شادی کے بارے میں بات کرتا ہے،نیز ہمارے درمیان صرف جنسی تعلق ہے، اس کے علاوہ  ہمارا کوئی معیاری وقت ایک ساتھ نہیں گزرتا ،میں یہ نہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ میری پرواہ کرتی ہے یا دیکھ بھال کرنے والی  یا مجھ سے محبت کرنے والی ہے۔

اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں:

1)  پہلی بیوی  دوسری شادی پر چھوڑنے کی دھمکی دیتی ہے۔

2) کیا دوسری شادی کرنے سے اگر پہلے بیوی کو طلاق ہوگئی کیا شوہر ذمہ دار ہوگا؟

3) دوسری لڑکی اس شرط پر شادی کے لیے تیار ہے ،جب پہلے بیوی کو طلاق دے دے۔

4) عام طور پر ہمارے علمائے کرام دوسری شادی کے لیے مسلمانوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی کیوں نہیں کرتے، سورہ نساء آیت نمبر 3 کی قرآنی تفسیر کے باوجود کئی نامور اور سلف صالحین مفسرین جن میں حضرت تھانویؒ اور عاشق الٰہیؒ صاحب وغیرہ شامل ہیں، کہ دوسری شادی انسان کی فطری ضرورت ہے،اور یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ اس دن اور دور میں اس کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے؟

5) ایک مسلمان مرد کے لیے دوسری شادی کے لیے کیا  شرائط ہیں؟

6)  اگر پہلی بیوی راضی نہ ہو تو کیا یہ بہتر نہیں ہے، کہ اس کی جگہ کسی نئی عورت کو لایا جائے جو کم از کم دینی علوم کا  علم رکھتی  ہو اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے شوہر کو کیا درجہ دیا گیا ہو اس کا بھی علم ہو؟ رہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ  شریعت  نے نکاح  کے بعد   میاں بیوی پر ایک دوسرے کے حقوق لازم کیے ہیں،شادی سے پہلے بیوی کو منتخب کرنے کا  اختیار ہوتا ہے ، شادی کے بعد بغیر کسی شرعی عذر کے بیوی کو چھوڑنا سخت ترین گناہ ہے،اور شریعت نے مرد کی فطری ضرورت کی بنا پر مرد کو چار نکاح کی  اجازت دی ہے،اس شرط کے ساتھ  کہ مرد اپنے بیویوں کے حقوق کا خیا ل رکھے،ان کے درمیان انصاف کرے،اور ظلم  اور بے انصافی سے باز رہے ۔

(1)صورتِ مسئولہ میں شوہر پہلی  بیوی کی اجازت کےبغیر دوسرے نکاح کرنے میں آزاد ہے،لہذا بیوی کا دوسرے شادی پر چھوڑنے کی دھمکی دینا شرعًا درست نہیں ،البتہ شوہر تدبر اور حکمت کے ساتھ پہلے بیوی کو سمجھاتا رہے کہ پہلی بیوی کا گھر بھی نہ ٹوٹے اور دوسری شادی کے لیے رضامند بھی ہوجائے۔

(2)اگر شوہر  کی دوسری شادی کرنے کے بعد از خود بیوی خلع یا طلاق کا مطالبہ کرے ،ا ور کسی صورت میں راضی نہ ہو ، اور نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے،تو   طلاق ہونے کی صورت میں شوہر ذمہ دار  نہیں ہوگا۔ بغیر کسی شرعی  عذر کے صرف دوسری بیوی کے  مطالبہ پر یا پہلے بیوی سے جان چھوڑانے کے لیے طلاق دینے کی صورت میں شوہر ذمہ دار ہوگا۔

(3)دوسری لڑکی کا شادی کے لیے پہلی بیوی کو طلاق کا مطالبہ کرنا  جائز نہیں ہے، حدیث میں ایک بیوی کو دوسری بیوی کے طلاق کا مطالبہ کرنے  سے منع کیا ہے۔

(4)علمائے کرام نے کبھی دوسری شادی سے منع نہیں کیا،لیکن موجودہ حالات میں ایک بیوی کے ساتھ بھی عمومًا شرعی احکامات کی پابندی نہیں کی جاتی،جس کی وجہ سے معاشرے میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔

(5) مرد کو ایک سے زائد چار تک شادیاں کرنے کی اجازت اس صورت میں  ہے،جب وہ انصاف کر سکے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتا ہو ،اور اس میں بیویوں کے درمیان برابری کرنے کی اہلیت ہو، لہذا اگر کسی شخص میں جسمانی یا مالی طاقت نہیں یا اسے خوف ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد برابری نہ کرسکے گا ،تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں۔

(6)بلا شرعی وجہ کے طلاق دینا درست نہیں اگر دوسری  بیوی کو ساتھ رکھنے پر قدرت ہو دونوں میں عدل وانصاف قائم کرسکے،تو دوسری شادی کرسکتا ہے ورنہ پہلی بیوی پر اکتفا کرے، جو حضرات بیویوں میں عدل وانصاف قائم کرنے پر قادر ہوں اور دوسری  شادی کی ضرورت بھی ہوتو اس کو دوسری شادی کرنی چاہیے،ورنہ بیویوں کے درمیان ظلم وستم اور عدم مساوات کی وعیدیں  کوبھی سامنے رکھنا چاہیے۔

خلاصہ یہ ہے کہ سائل اگر دو بیویوں کے درمیان  حقوق میں برابری کرسکتا ہے تو اس کے لیے دوسری شادی کی اجازت ہے، خواہ پہلی بیوی اجازت نہ دے، لیکن سائل کا اپنے کام کی جگہ کے ماحول کے بے پردہ ہونے اور زنا میں واقع ہونے کے خطرے کو بنیاد بنانا درست نہیں ہے؛ کیوں کہ  سائل کے بقول اس کا پہلی بیوی سے جنسی تعلق قائم ہے، اور بیوی کی طرف سے اس حوالے سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اس لیے سائل  کو جب جنسی طلب ہو تو  اسے چاہیے کہ وہ بیوی کے قریب آکر حلال طریقے سے اپنی خواہش پوری کرے،  دوسری عورتوں کی طرف توجہ نہ دے، حدیث شریف میں بھی اسی کا حکم ہے،  نیز سائل کو اپنی نظروں  کی حفاظت بھی کرنا چاہیے، اور اپنا ماحول بھی درست کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔

       قرآن کریم میں ہے:

"فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ.(النِّسَآء:3)"

"ترجمہ: اور عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں نکاح کرلو ،دو دو (عورتوں سے )اورتین تین( عورتوں سے) اور چار چار( عورتوں سے)۔ (بیان القرآن)"

صحيح البخاری   میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا ‌يحل لامرأة ‌تسأل طلاق أختها، لتستفرغ صحفتها، فإنما لها ما قدر لها."

ترجمہ: "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی عورت کے لیے اپنی مسلمان بہن (یعنی سوکن) کی طلاق کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے تاکہ اس کا حصہ بھی اس کو مل جائے حالانکہ اس کو وہی ملے گا جو اس کا حصہ ہے۔"

(كتاب النكاح، الشروط التي لا تحل في النكاح، 1978/5، ط: دار ابن كثير)

سنن ابی داؤد ميں  ہے:

"حدثنا أبو الوليد الطيالسي، نا همام، نا قتادة ، عن النضر بن أنس، عن بشير بن نهيك ، عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من كانت له ‌امرأتان فمال إلى إحداهما جاء يوم القيامة وشقه مائل."

"ترجمہ  :رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: جس کی دو بیویاں  ہوں،پس وہ  ان میں سے ایک جانب   جھک جائے ،تو قیامت کے دن اس  حال میں آئے گاکہ اس کا ایک طرف جھکا ہوا ہوگا۔"

(كتاب النكاح، ‌‌باب: في القسم بين النساء، 243/2، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب.

(قوله وظاهر الآية أنه فرض) فإن قوله تعالى {فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة} [النساء: 3] أمر بالاقتصار على الواحدة عند خوف الجور، فيحتمل أنه للوجوب، فيعلم إيجاب العدل عند تعددهن كما قاله في الفتح."

(كتاب النكاح، باب القسم بين الزوجات،  201/3۔202، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510101880

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں