ہمارے آباء و اجداد نے اپنی ملکیتی اراضی، کیوٹ نمبر 155 سے تقریباً چھ یا سات کنال زمین قبرستان اور مسجد کے لیے وقف کی تھی، جو اہلِ محلہ کے لیے مخصوص ہے۔ چونکہ یہ قبرستان بہت پرانا ہے، اس میں مزید قبریں بنانے کی جگہ باقی نہیں رہی۔ اہلِ محلہ کے علاوہ دیگر علاقوں کے لوگوں کو بارہا یہ بات سمجھائی گئی کہ ہمارے قبرستان میں مزید جگہ نہیں ہے اور ہر محلے کا اپنا الگ قبرستان موجود ہے، لہٰذا وہ اپنے جنازے اپنے ہی قبرستان میں دفن کریں۔ ہمارے قبرستان میں نہیں لائیں۔
تاہم، باوجود بارہا منع کرنے کے، کچھ لوگ اپنی مرضی سے ہمارے قبرستان میں جنازے دفنا رہے ہیں۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ یہ قبرستان کسی جنگل یا خالص سرکاری زمین پر نہیں بلکہ ہماری ملکیتی اراضی پر قائم ہے۔ اس پس منظر میں درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
1. بغیر اجازت کسی کے قبرستان میں مردے دفنانے کا شرعی حکم کیا ہے؟
2. کیا مسلمانوں کے علاقوں میں موجود قبرستان تمام اہلِ اسلام کے لیے مشترک ہوتے ہیں، یا بعض علاقے اور لوگ اپنے محلے کے لیے قبرستان کو مخصوص کر سکتے ہیں؟
3. جب قریب میں ایک قبرستان موجود ہو، تو کیا کسی دوسرے علاقے کے قبرستان میں مردے دفنانا، خصوصاً بغیر اجازت، جائز ہوگا؟
4. خالص سرکاری زمین (جسے جنگل یا سرکاری اراضی کہا جاتا ہے) میں کسی کو دفنانے کا کیا حکم ہے؟
1۔ وا ضح رہے ،کہ وقف قبرستان جو کسی کی ملکیت نہ ہو ، اس میں کسی کو تدفین سے روکنا جائز نہیں ہے۔البتہ اگر کسی خاص بستی میں مقیم لوگوں کے لیے قبرستان وقف ہے۔واقف کی طرف سے کسی اور کو دفن کرنے کی اجازت نہ ہو تو پھر ایسی بستی میں دوسرے افراد کی تدفین اس بستی کے موقوفہ قبرستان میں وہاں کی انتظامیہ کی اجازت کے ساتھ جائز ہو، اجازت کے بغیر جائز نہیں ۔
2۔قبرستان کی نوعیت اور واقف کی نیت کے مطابق، قبرستان عمومی یا مخصوص ہو سکتے ہیں۔ اگر واقف نے قبرستان کو تمام مسلمانوں کے لیے وقف کیا ہے، تو وہ سب کے لیے مشترک ہوگا، اور کسی کو تدفین سے روکنا جائز نہیں ہوگا۔ تاہم، اگر واقف نے قبرستان کو کسی خاص بستی یا افرادکے لیے مخصوص کیا ہے، تو وہاں صرف اسی بستی یا افراد کی تدفین ہوگی، اور دوسروں کو بغیر اجازت دفن کرنا جائز نہیں ہوگا۔
3۔ اگر کسی علاقے میں عمومی قبرستان موجود ہو، تو میت کو وہاں دفن کرنا چاہیے۔ کسی دوسرے علاقے کےخصوصی قبرستان میں، خاص طور پر بغیر اجازت، میت دفنانا جائزنہیں ہے۔ البتہ، اگر کسی وجہ سے مقامی قبرستان میں تدفین ممکن نہ ہو، تو متعلقہ حکام یا قبرستان کی انتظامیہ سے اجازت لے کر دوسرے علاقے کے قبرستان میں تدفین کی جا سکتی ہے۔
4۔سرکاری زمین ،میں کسی میت کو دفن کرنا شرعی اور قانونی طور پر جائز نہیں ہے، جب تک کہ متعلقہ حکام کی اجازت نہ ہو۔ اگر متعلقہ حکام اجازت دے دیں تب اس زمین کو قبرستان کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
"الفقہ الاسلامی وادلتہ" میں ہے:
"إذا صحّ الوقف خرج عن ملک الواقف ، وصار حبیسًا علی حکم ملک الله تعالی ، ولم یدخل في ملک الموقوف علیه ، بدلیل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالک الأول) کسائر أملاکه ، وإذا صحّ الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته."
( الباب الخامس الوقف ، الفصل الثالث حکم الوقف، ج:10، ص: 7617)
فتاوی شامی میں ہے:
"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به".
(کتاب الوقف، ج: 4، ص: 433، ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے :
"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة."
(کتاب الوقف ج:4،ص:445،ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ميت دفن في أرض إنسان بغير إذن مالكها كان المالك بالخيار إن شاء رضي بذلك وإن شاء أمر بإخراج الميت وإن شاء سوى الأرض وزرع فوقها."
(کتاب الوقف، ج:2،ص472،ط:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين".
(باب الغصب والعارية، ج:1، ص:254، ط:قديمي)
" ترجمہ: سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی اور کی زمین سے ظلما ایک بالشت جگہ لےلی تو قیامت کےدن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائےگا۔"
فتاوی شامی میں ہے:
"مطلب شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء مالم يكن معصية، وله أن يخص صنفاً من الفقراء ولو كان في كلهم قرية،".
(كتاب الوقف ،مطلب شرائط الواقف ،ج:4 ،ص:343، ط: سعید)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"سوال [۱۷۵۱۲ : ایک زمین قبرستان کے نام سے ایک خاندان کے لئے نامزد ہے، زمین مذکورہ میں خاندان موصوفہ کی میتیں مدفون ہوں ، عوام الناس کو عام طریقہ پر اپنے مردے دفن کرنے کی اجازت نہیں ہے، اور نہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص غیر متعلق اپنا مردہ بلا اجازت اشخاص خاندان موصوفہ قبرستان مذکورہ میں دفن کر دے تو یہ جائز ہے یا نا جائز ہے ؟ اگر اجازت حاصل کرنی چاہئے تو جملہ خاندان کے اشخاص کی ضرورت ہے، یا صرف ایک دو شخصوں کی کافی ہے؟ اگر صرف دو چار اشخاص نے اجازت دیدی اور دیگر انکار کر دیں تو اس اجازت پر عوض جائز ہے یا نا جائز ہے؟
الجواب حامداً و مصلياً :
اگروہ ز مین شرعی طریق پر وقف ہے تو واقف کی شرائط کے موافق عمل کرنا چاہیے ، اگر واقف کی طرف سے اجازت ہے تو دفن کرنا درست ہے، اگر غیر متعلق اشخاص کے دفن کرنے کی ممانعت ہے تو دفن کرنا نا جائز ہے۔
شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع، وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء مالم يكن معصية، وله أن يخص صنفاً من الفقراء ولو كان في كلهم قرية، اهم رد المحتار .
اگر وقف نامہ موجود نہیں، نہ شرائط واقف کا علم ہے اور عمل پہلے سے یہ ہے کہ غیر متعلق اشخاص کو اس میں دفن کرنے سے روکا جاتا ہے تو اس میں دفن نہیں کرنا چاہیے ۔ اگر وہ وقف نہیں ، بلکہ مملوک ہے تو مالک کی اجازت سے دفن کرنا چاہئیے ، بلا اجازت مالک کے دفن کرنا نا جائز ہے (۲) ۔ جو جو اس کے مالک ہیں مشترک اور مقسوم ہونے کی وجہ سے سب کی اجازت ضروری ہے، اگر تمام نے کسی ایک دو کو اس میں تصرفات اور اجازت و ممانعت دفن کے لئے اپنا وکیل بنا دیا ہے تو اس ایک دو کی اجازت کافی ہے (۳)، بلا اجازت دفن کی صورت میں مالک کو اختیار ہو گا کہ میت کو قبر سے باہر نکال دے، یا قبر کو برابر کر دے:إذا دفن الميت في أرض غيره بغير إذن مالكها، فالمالك بالخيار: إن شاء أمر بإخراج الميت، وإن شاء سوى الأرض وزرع فيها، كذا في التجنيس". فتاوی عالمگیری."
حرره العبد محمود گنگوہی عفا اللہ عنہ معین مفتی مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور ۴۰ شعبان /۵۵۴
الجواب صحیح: سعید احمد غفر لہ امدرسہ مظاہر علوم سہارنپور۔
صحیح عبد اللطيف ، مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور، ۶ / شعبان /۵۵۴
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608102163
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن