اگر ایک حنفی مسلک کا آدمی کسی دوسرے ملک چلا جائے جہاں مختلف مسالک کے لوگ ہیں ، اور وہ شوافع کے پیچھے نماز تراویح پڑھتا ہے تو وہ کس طرح نماز کی ادائیگی کرے گا، آٹھ پڑھے گا یا پھر اپنی بیس ادا کرے گا؟ دوسرا یہ کہ وہ وتر جماعت کے ساتھ ہی پڑھے گا یا اپنے طور پر انفرادی ادا کرے گا؟
ائمہ اربعہ میں سے کسی کے نزدیک تراویح بیس رکعات سے کم نہیں ہے، لہذا اگر کوئی ایسے ملک چلا جائے جہاں آٹھ رکعت تراویح پڑھی جاتی ہوں تو آٹھ رکعات تراویح پڑھ کر بقیہ بارہ رکعتیں اگر ممکن ہو تو جماعت کے ساتھ ورنہ انفرادی طور پر ادا کرلی جائیں۔
نیز حنفی مسلک میں وتر کی نماز تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے ؛ اس لیے حنفی کے لیے دو سلام کے ساتھ وتر پڑھنا درست نہیں ہے، لہذا مذکورہ حنفی شخص کو چاہیے کہ وہ شافعی امام کی اقتداء میں وتر کی نماز میں شامل نہ ہو ، بلکہ اپنی علیحدہ اجتماعی یا انفرادی وتر پڑھیں۔
المجموع شرح المہذب میں ہے:
"مذهبنا أنها عشرون ركعة بعشر تسليمات غير الوتر وذلك خمس ترويحات والترويحة أربع ركعات بتسليمتين هذا مذهبنا وبه قال أبو حنيفة وأصحابه وأحمد وداود وغيرهم ونقله القاضي عياض عن جمهور العلماء وحكي أن الاسود بن مزيد كان يقوم بأربعين ركعة ويوتر بسبع وقال مالك التراويح تسع ترويحات وهى ستة وثلاثون ركعة غير الوتر."
(كتاب الصلاة، باب صلاة التطوع، ج:4، ص:32، ط:دار الفكر)
البحر الرائق میں ہے:
"فظهر بهذا أن المذهب الصحيح صحة الاقتداء بالشافعي في الوتر إن لم يسلم على رأس الركعتين وعدمها إن سلم."
(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:42، ط:دار الكتاب الاسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100792
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن