میں فیس بک اور کچھ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر لڑکیوں سے بات کرتا تھا، مثلاً میں ان سے کہتا تھا کہ میں قطریا کسی اور ملک کا بتاتا تھا کہ میں اس ملک سے ہوں، پھر میں ان سے بات کرتا تھا اور ان سے کہتا تھا آپ یہاں ہمارے ملک میں آجاؤ، پھر میں ان سے کہتا تھا کہ آپ کا پاسپورٹ ہے یا نہیں؟ میں آپ کو پاسپورٹ کے لیے پیسے بھیجتا ہوں، یا ان سے کہتا تھا کہ میں آپ کوقطر کا ویزہ دوں گا اور آپ کو یہاں نوکری دوں گا،میرا کاروبار ہے، پھر میں ان سے کہتا تھا کہ میں آپ کو کچھ پیسے بھیجتا ہوں اور ایک جعلی رسید آن لائن بنا کر ان کو بھیجتا تھا، اور اس کے بعد میں ان سے ویڈیو کال کا کہتا تھااور ویڈیو کال کرنے پر میں ان سے نامناسب کام کا کہتا تھا اور خود بھی کرتا تھا، اور ایک دوسرے کو بغیر لباس کے دیکھتے اور بہت غلط اور گندے کام کرتےتھے، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ میں نے ان سے جس ملک کا کہا تھا کہ میں وہاں سے ہوں اور جس کاروبارکا ان کو بتایا تھا تو کیا اب میں اس ملک جاسکتا ہوں، جس ملک کا میں نے ان لڑکیوں کو بتایا تھا اور کیا وہی کاروبارکرسکتا ہوں جس کا میں نے ان لڑکیوں کو بتایا تھا اور جعلی رسید میں جو بینک اکاؤنٹ تھا کیا میں وہی بینک اکاؤنٹ بنا کر استعمال کر سکتا ہوں؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کا جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس بناکر اپنے آپ کو کسی دوسرے ملک کا رہائشی ظاہر کرکے ، لڑکیوں سے بات چیت کرنا، انہیں رقوم کی جعلی رسیدیں بھیجنا اور بعد ازاں ان سے ویڈیو کالز وغیرہ کے ذریعے گفتگو یا نامناسب کاموں کا سرانجام دیناجھوٹ، دھوکہ دہی و دیگر شرعی قباحتوں کی بناء پر حرام اور ناجائز تھا۔ سائل کو اپنے ان تمام افعال پر سچے دل سے توبہ و استغفار کرنا لازم ہے اور ان تمام کاموں کو فوری ترک کردینا بھی لازم ہے ۔
البتہ جن ممالک کا ذکر کیا تھا یا جس کاروبار کے کرنے کا جھوٹ کہا تھا ، یا جو بینک اکاؤنٹس ظاہر کیے تھے ، اب اس ملک میں جانا، یا وہ کاروبار اگر جائز ہو تو اسے اختیار کرنا یا بوقت ضرورت بینک (کرنٹ)اکاؤنٹس کھلواناجائز ہے ،البتہ ان امور کو دوبارہ غلط کاموں کے لیے استعمال کرنا بدستور ناجائز و حرام ہوگا۔
ارشادی باری تعالی ہے:
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ﴿۳۰﴾ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿۳۱﴾
"ترجمہ:آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے زیادہ صفائی کی بات ہے بے شک اللہ تعالیٰ کو سب کی خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں اور (اسی طرح) مسلمان عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ (وہ بھی ) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور زینت ( کے مواقع ) کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس ( موقع زینت ) میں سے (غالبا) کھلا رہتا ہے ( جس کے ہر وقت چھپانے میں حرج ہے ) اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں اور اپنی زینت ( کے مواقعہ مذکورہ ) کو (کسی پر )ظاہر نہ ہونے دیں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے ( محارم پر یعنی ) باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہروں کے بیٹوں پر یا اپنے ( حقیقی علاتی اور اخیافی بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر یا اپنی حقیقی علاتی اور اخیافی بہنوں کے بیٹوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنی لونڈیوں پر یا ان مردوں پر جو طفیلی ( کے طور پر رہتے ) ہوں اور ان کو ذرا توجہ نہ ہو یا ایسے لڑکوں پر جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے بھی ناواقف ہیں ( مراد غیر مراہق ہیں ) اور اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہو جائے اور (مسلمانوں تم سے جو ان احکام میں کو تا ہی ہو گئی ہو تو )سب اللہ کے سامنے تو بہ کروتا کہ تم فلاح پاؤ۔"
(بیان القرآن،سورۃ النور،ص 573،ج:2،ط: دار الاشاعت)
چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
"حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب."
(مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج: 36، صفحہ: 504، رقم الحدیث: 22170، ط: مؤسسة الرسالة)
وفیہ ایضاً:
"حدثنا سفيان، عن الأعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله بن عمرو أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " أربع من كن فيه كان منافقا خالصا، ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها: إذا اؤتمن خان، وإذا حدث كذب، وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر. تابعه شعبة، عن الأعمش."
(صحیح البخاری ، باب علامة المنافق، ج: 1، صفحہ: 16، رقم الحدیث: 34، ط: دار طوق النجاة (مصورة عن السلطانية بإضافة ترقيم ترقيم محمد فؤاد عبد الباقي)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من غشنا فليس منا."
(كتاب البيوع والأقضية، ما ذكر في الغش، ج:4، ص:563، ط: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة)
فتاوی شامی میں ہے:
"فإنا نجيز الكلام مع النساء الأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولانجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها؛ لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن، وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة."
(کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ ،ج:1،ص؛406، ط: سعید)
درر الحکام میں ہے :
"لأن الثابت بالضرورة يتقدر بقدرها".
(باب الاعتکاف،ج:1،ص:213،داراحیاء الکتب العربیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102724
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن