کسی شخص کا تاریخی ڈرامہ میں کسی صحابی کا کردار ادا کرنا اور صحابی کے کریکٹر کے طور پر کام کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟اگر ڈرامہ میں مذکورہ کردار کی وجہ سے عام مسلمان دین کی طرف متوجہ ہوں ، یا غیرمسلموں کا اسلام کی طرف مائل ہونے کا امکان ہوتو اس خاص صورت میں مذکورہ شخص کا اس نیت کے ساتھ کہ لوگ میرے کام کی وجہ سے اسلام کی طرف آئیں گے ، کام کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟اگر کوئی اس طرح کے کردار پر مشتمل تاریخی ڈرامہ بنائے تو ناظرین کے لیے اس کا دیکھنا شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟
تاریخی ڈرامہ میں کسی صحابی کا کردار ادا کرنا کسی بھی نیت سے ہو ، ناجائز ہے ۔ ایک یہ کہ اس طرح کی حکایات میں مقدس ہستیوں کی توہین لازم آتی ہے ، دوسرا یہ کہ ڈرامہ کی فلم بندی میں تصویر سازی، تصویر بینی اور تصویر پھیلانے کا گناہ بھی شامل رہے گا، اس لیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس نوعیت کی خرافات سے اجتناب کریں،اور جائز ذرائع سے دین کی تفہیم و تبلیغ کا فریضہ انجام دیں ، ہاں اگر جاندار کی تصویر کے بغیر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال اور افعال کو آڈیو میں نقل کیا جائے تو درست ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
"وعن عبد الله بن مسعود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أشد الناس عذابا عند الله المصورون»."
(مشکاۃ المصابیح: کتاب اللباس، باب التصاویر،رقم:4497, ج:2،ص:1247،ط:المکتب الاسلامی)
البحر الرائق میں ہے:
"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال قال أصحابنا وغيرهم من العلماء تصوير صور الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث."
(کتاب الصلاۃ،باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،ج:2،ص:2،ط:دار الکتب الاسلامی)
تفسیر قرطبی میں ہے:
"فجعل تعالى الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر فرقا بين المؤمنين والمنافقين، فدل على أن أخص أوصاف المؤمن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، ورأسها الدعاء إلى الإسلام والقتال عليه. ثم إن الأمر بالمعروف لا يليق بكل أحد، وإنما يقوم به السلطان إذ كانت إقامة الحدود إليه، والتعزيز إلى رأيه، والحبس والإطلاق له، والنفي والتغريب، فينصب في كل بلدة رجلا صالحا قويا عالما أمينا ويأمره بذلك، ويمضي الحدود على وجهها من غير زيادة... قال: والأحاديث عن النبي صلى الله عليه وسلم في تأكيد الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر كثيرة جدا ولكنها مقيدة بالاستطاعة ۔۔۔قلت: القول الأول أصح، فإنه يدل على أن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر فرض على الكفاية."
(سورہ آل عمران، ج:4، ص:48۔165، ط: دار الکتب المصری)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101284
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن