بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈراپ شیپنگ کی جواز کی صورت


سوال

 ڈراپ شپنگ کی کونسی صورت  جائز ہیں اور کونسی نا جائز؟ راہنمائي کر دیں۔

جواب

واضح رہے کہ ڈراپ شیپنگ ہویا انٹرنیٹ پر اس طرح خریدوفروخت کی کوئی بھی صورت ہو،شرعاًاس کے  جواز کےلیے درج ذیل امور کا خیال رکھنا ضروری ہے :

1۔ انٹرنیٹ پرسونا چاندی یا کرنسی کی خریدوفروخت  ہو تو بیعِ صرف کے احکام کی رعایت  لازم ہوگی۔

2۔ مبیع  (فروخت کردہ چیز) اور ثمن  (قیمت کے طور پر طے کردہ چیز) کی مکمل تفصیل بتائی جائے، جس سے ہر قسم کی جہالت  اور ابہام ختم ہوجائے۔

3۔ کوئی بھی شرط فاسد نہ لگائی گئی ہو۔

4۔ صرف تصویر دیکھنے سے خیارِ رویت  ساقط نہ ہوگا، لہذا اگر مبیع تصویر کے مطابق نہ ہو تو مشتری کو واپس کرنے کا اختیار ہوگا۔

5۔ ویب سائٹ پر جان دار کی تصویر نہ لگائی جائے۔

6۔ اگر ویب سائٹ والے آرڈر ملنے پر کسی اور جگہ سے چیز مہیا کرتے ہوں تو صارف کو اس وقت تک نہ بیچیں، جب تک چیز ان کے قبضے میں نہ آجائے، البتہ وہ وکیل بالشراء (خریداری کے وکیل)کے طورپر معاہدہ کرسکتے ہیں،یعنی مثلاً خریدار سے یہ کہہ دے کہ میں آپ  کے لئے یہ چیز خریدوں گا اور اس پر یہ متعین کمیشن لوں گا یا خریداروں سے بیع  (سودے) کے بجائے بیچنے کا وعدہ کرسکتے ہیں۔

7۔ ویب سائٹ پر اشیاء بیچنے والے  کو چاہیے کہ  ادائیگی کے لیے کریڈٹ کارڈ کا آپشن  دینے کے بجائے صرف ڈیبٹ کارڈ  یا    ڈیلیوری پر ادائیگی کا آپشن  دے؛ کیوں کہ  کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں، اگر چہ وقتِ مقررہ کے اندر ادائیگی کردی جائے اورسود دینے کی نوبت نہ آئے،یعنی مثلاً خریدار سے یہ کہہ دے یا اپنی ویب سائٹ پر یہ لکھ کر لگا دے کہ یہ چیز اتنی قیمت میں آپ کو ملے گی،اس کے بعد سپلائر سے مال خریدنے کے بعد اپنے قبضہ میں لے کر خریدار کو فروخت کر دے۔

            اگر ڈراپ شیپنگ یا آن لائن خریدوفروخت کے وقت مذکورہ شرعی قوانین کی پاسداری نہ کی جائے تو وہ کاروبار شرعاً جائز نہیں ہے، خواہ وہ ڈراپ شیپنگ ہو یا آن لائن خرید و فروخت کی کوئی اور صورت ہو۔

اس کے علاوہ اگر کسی خاص صورت کا حکم معلوم کرنا  ہوتو  اس کی صورت لکھ کر سوال دوبارہ جمع کرکے اس کا حکم معلوم کرلیا جائے۔

اس مسئلہ کی مزید تفصیل ہماری ویب سائٹ پر درج ذیل عنوانات کے تحت دیکھیے:

ڈراپ شیپنگ کے کاروبار کا حکم

ڈراپ شپنگ میں قبضہ سے پہلے مال فروخت کرناسپلائر کمپنی کی طے شدہ قیمت سے کم میں فروخت کرنا

آئن لائن شاپنگ کا حکم

الفتاوى الهندية  میں ہے:

"شراء ما لم يره جائز، كذا في الحاوي. وصورة المسألة أن يقول الرجل لغيره: بعت منك هذا الثوب الذي في كمي هذا، وصفته كذا، والدرة التي في كفي هذه، وصفتها كذا أو لم يذكر الصفة، أو يقول: بعت منك هذه الجارية المنتقب ... وإن أجازه قبل الرؤية لم يجز وخياره باق على حاله، فإذا رآه إن شاء أخذ وإن شاء رده، هكذا في المضمرات".

(کتاب البیوع، الباب السابع فی خیارالرؤیة، ج:3، ص:57، ط:رشیدیة)

وفیہ ایضاً:

"خيار العيب يثبت من غير شرط، كذا في السراج الوهاج. وإذا اشترى شيئًا لم يعلم بالعيب وقت الشراء ولا علمه قبله والعيب يسير أو فاحش فله الخيار إن شاء رضي بجميع الثمن وإن شاء رده، كذا في شرح الطحاوي. وهذا إذا لم يتمكن من إزالته بلا مشقة، فإن تمكن فلا كإحرام الجارية".

(کتاب البیوع، الباب السابع فی خیارالرؤیة، ج:3، ص:66، ط:رشیدیه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402101355

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں