بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈرائیور حضرات کب قصر کریں؟


سوال

ڈرائیور حضرات روزانہ سفر کرتے ہیں، وہ لاہور جا کر کون سی   نماز پڑھیں گے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص  اپنے شہر کی حدود سے 48 میل (77.24 کلو میٹر)یا اس سے دور کہیں جانے کی نیت سےنکلے،اور اپنے شہر یا گاؤں کی آبادی سے باہر نکل جائےتو وہ  راستے  میں قصر کرے گا،یعنی اکیلے نماز پڑھنےیا امام بننے کی صورت میں چار رکعت والی فرض نماز دو رکعت پڑھے / پڑھائے گا،نیز اگر وہاں پندرہ دن سے کم قیام کا ارادہ ہو تو وہاں بھی قصر کرے گا، اور  اگر وہاں پندرہ دن یا اس سے زائد قیام کی نیت ہو تو وہاں پر مقیم شمار ہو گا، اور  پوری نماز پڑھنی ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں  ڈرائیور حضرات   کے گاؤں یا شہر اور  لاہور کے درمیان 48 میل(77.24 کلو میڑ ) یا اس سے زیادہ فاصلہ ہو،اور  لاہور میں 15 دن سے کم  قیام کی نیت ہوتو  ان حضرات  کو اپنے گاؤں یا شہر کی آبادی سے باہر نکلتے ہی سفر کی نماز پڑھنی ہوگی،  البتہ اگر کسی مقیم امام کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے، تو پوری نماز پڑھیں گے۔ اور اگر ڈرائیور حضرات کے گاؤں یا شہر اور لاہور کے درمیان 48 میل(77.24 کلو میڑ ) سے کم فاصلہ ہو یا لاہور میں 15 دن سے زیاد ہ قیام  کی نیت  ہو،تو یہ  حضرات لاہور میں  پوری نماز پڑھیں گے۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا بد للمسافر من قصد مسافة مقدرة بثلاثة أيام حتى يترخص برخصة المسافرين ... ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوما أو أكثر، كذا في الهداية."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس عشر في صلاة المسافر، 139/1، ط: دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم

الدر مع الرد میں ہے:

"(من خرج من عمارة موضع إقامته) من جانب خروجه وإن لم يجاوز من الجانب الآخر. وفي الخانية: إن كان (مسيرة ثلاثة أيام ولياليها) (صلى الفرض الرباعي ركعتين).

ولو جاوز العمران من جهة خروجه وكان بحذائه محلة من الجانب الآخر يصير مسافرا إذ المعتبر جانب خروجه."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب صلاة المسافر، 121/2۔122۔123، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"(و) لا (مسافر بمقيم بعد الوقت فيما يتغير بالسفر) كالظهر، سواء أحرم المقيم بعد الوقت أو فيه، فخرج فاقتدي المسافر (بل) إن أحرم (في الوقت) فخرج صح (وأتم) تبعا لإمامه.

(قوله ولا مسافر بمقيم إلخ) أي ولا يصح اقتداء مسافر بمقيم إلخ. وبيان ذلك أن صلاة المسافر قابلة للإتمام ما دام الوقت باقيا، بأن ينوي الإقامة، أو بأن يقتدي بمقيم فيصير تبعا لإمامه ويتم لبقاء السبب وهو الوقت. أما إذا خرج الوقت فقد تقررت في ذمته ركعتين فلا يمكن إتمامها بإقامة أو غيرها، حتى إنه يقضيها في بلده ركعتين، فإذا اقتدي بعد الوقت بمقيم أحرم بعد الوقت أو فيه لا يصح، لما قلنا ولما يأتي، بخلاف ما إذا اقتدى به في الوقت فإنه يتم لما قلنا."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب الإمامة، 581/1، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100418

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں