بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈراپ شپنگ کی ایک صورت کا حکم


سوال

آج کل بہت سے لوگ ڈراپ شپنگ کا کام کر رہے ہیں، جس میں ایک شخص کسی دوسرے کی پروڈکٹ اپنے پیج یا ویب سائٹ یا پھر واٹس ایپ پر کسی کسٹمر کر دکھاتا ہے اور آرڈر آنے پر اس ڈیلر کو نام پتہ بھجوا دیتا ہےاور وہ ڈیلر کسٹمر کو بھجوا دیتا ہے۔ پیمنٹ کبھی تو کیش آن ڈیلیوری پر ڈیلر کو ہوتی ہے اور وہ بعد میں کمیشن اس شخص کو دے دیتا ہے، کبھی پہلے ہوتی ہے جس میں یہ شخص اپنا کمیشن رکھنے کے بعد اس ڈیلر کو بھجوا دیتا ہے اور وہ چیز کسٹمر کو بھجوا دیتا ہے۔ کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟ اس کی مختلف صورتوں کے بارے اگر ممکن ہو تو تفصیلی بتا دیں کہ کون سی صورت جائز ہے اور کون سی نہیں؟۔ یہ بھی بتا دیں کہ کیا یہ شخص ایسا کر سکتا ہے کہ ڈیلر سے بھی ڈسکاؤنٹ لے یعنی چیز کم قیمت پر لے اور کسٹمر کو اس ڈیلر سے بھی مہنگی بیچے جس پر وہ اپنے کسٹمرز کو بیچ رہاہے۔

جواب

واضح رہے کہ  کسی بھی منقولی چیز کو خریدنے کے بعد اس پر فزیکلی  قبضہ کرنے  سے پہلے  آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے؛  لہذا صورتِ  مسئولہ  میں   ڈیلر  كمپني  کی چیزوں کے اشتہار، تصاویر اور اس کی تفصیل اپنے  پیج/ ویب سائٹ پر لگا کر کسٹمر کو دکھاتا ہے،  اور  ان چیزوں کو    نہ خریدا  ہوا ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اس کے قبضہ میں ہوتی ہیں، بلکہ وہ محض اشتہار ،تصویردکھلاکر کسٹمر  کو وہ سامان فروخت کرتا ہے  تو اگر ایسی صورت میں  وہ شخص   اپنے کسٹمر سے باقاعدہ خرید و فروخت کا معاملہ کرلیتا ہو اور کسٹمر سے سودا کرنے کے بعد  وہ چیز ڈیلر کمپنی سے خرید کردیتا ہو  یا  کسٹمر سے سودا کرنے سے پہلے،  ڈیلر کمپنی سے  وہ چیز تو خرید لیتا ہو، لیکن اس پر  خود یا اپنے وکیل کے ذریعے قبضہ نہیں کرتا ہو تو     یہ دونوں صورتیں جائز نہیں ہیں ؛ اس  لیے کہ   جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو،اس کا  فروخت کرنے والے کی ملکیت اور  قبضہ  میں  ہونا شرعاً ضروری  ہے،  اور براہ راست  ڈیلر کمپنی کا کسٹمر کو مال پہنچادینا   قبضہ  كے ليے  کافی نہیں ہے۔

اس کے جواز کی صورتیں درج ذیل ہیں:

1:  مذکورہ شخص  کسٹمر سے   باقاعدہ خرید و فروخت کا معاملہ کرنے کے بجائے  اس سے  فروخت کرنے کا وعدہ کرلے یعنی  مثلاً   کسٹمر سے یہ کہہ دے  یا اپنی ویب سائٹ پر  یہ لکھ کر لگادے کہ یہ چیز اتنی قیمت میں آپ کو ملے گی  اور اس وعدہ کے عوض پیشگی رقم لینا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے، اور  اس کے بعد     ڈیلر کمپنی سے مال خریدنے کے بعد اپنے قبضہ میں لے کر  کسٹمر  کو فروخت کردے، اور قبضہ کے لیے یہ صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہےکہ مذکورہ شخص  ڈیلر  کمپنی کے علاوہ کسی تیسرے شخص کو اپنا وکیل متعین کردے  اور وہ اس  کی طرف سےڈیلر  کمپنی سے سامان  لے لے، اور اس کے بعد  کسٹمر تک پہنچادے یا کمپنی کو  کہہ دے  کہ یہ مال فلاں آدمی کو بھیج دیں۔

2:مذکورہ شخص  ڈیلر كمپني کا کمیشن ایجنٹ بن جائے ، اور فی پراڈکٹ اپنی کمیشن رقم یا فیصد میں متعین کرلے  تو اس صورت میں ویب سائٹ پر ان کی اشیاء لگاکر   باقاعدہ کسٹمر کو فروخت کرنا  اور  ڈیلر  کمپنی سے  طے شدہ کمیشن لینا بھی جائز ہوگا، اور آرڈر کے بعد  ڈیلر  کمپنی کا براہ راست کسٹمر  کو سامان پہنچادینا بھی کافی ہوگا۔

باقی ڈیلر کمپنی سے ڈسکاؤنٹ لینے کے بعد اس چیز کو ڈیلر کمپنی کی قیمت سے زیادہ پر بیچنا جائز ہے ۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده «، ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم."

(کتاب البیوع،ج:5،ص:147،دارالکتب العلمیۃ)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه) إنما اقتصر على البيع ولم يقل إنه يتصرف فيه لتكون اتفاقية، فإن محمدا يجيز الهبة والصدقة به قبل القبض۔۔۔أخرج النسائي أيضا في سننه الكبرى عن يعلى بن حكيم عن يوسف بن ماهك عن عبد الله بن عصمة عن حكيم بن حزام قال: قلت يا رسول الله إني رجل أبتاع هذه البيوع وأبيعها فما يحل لي منها وما يحرم؟ قال: لا تبيعن شيئا حتى تقبضه  ورواه أحمد في مسنده وابن حبان".

(کتاب البیوع،باب المرابحۃ والتولیۃ،ج:6،ص:511،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144510101461

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں