ڈراپ شپنگ سے متعلق ایک سوال ہے، بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ ڈراپ شپر جس کمپنی سے چیز خرید کر آگے بیچتا ہے ،اس کی طرف سے مبیع کی ڈیلیوری مفت مل جاتی ہے، یعنی ڈیلیوری چارجز کی مد میں مثلا 100ڈالر خرچہ آنا تھا، مگر کمپنی نے یہ خرچہ ڈراپ شپر سے نہیں لیا، اب ڈراپ شپر اپنے کسٹمر کو جب چیز بیچ رہا ہےتو وہ اس سے 100 ڈالر ڈیلیوری چارجز والے بھی لیتا ہے، جب کہ کمپنی(بائع) نے اس سے نہیں لیے تھے،آیا یہ چارجز لینا اس کیلئے جائز ہے یا نہیں؟یعنی ڈراپ شپر تک مال پہنچانے کے جو ڈیلیوری چارجز بائع کمپنی نے ڈراپ شپر کو معاف کیے تھے، ڈراپ شپر وہ چارجز اپنے کسٹمر سے لے سکتا ہے یا نہیں؟
ڈراپ شپنگ کی بیع قبل القبض اور بیع بعد القبض دونوں صورتوں سے متعلق یہ سوال ہے، آیا دونوں صورتوں میں ایک ہی حکم ہوگا یا کوئی فرق ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر ڈراپ شپر باقاعدہ کمپنی سےچیز خرید نے کے بعد خود یا اپنے وکیل کے ذریعہ سےقبضہ میں لے کرآگے بیچتا ہےتواس صورت میں اس کے لیےاپنےکسٹمرسے ڈیلیوری چارجز (جس کو کمپنی نے ڈراپ شپر کو معاف کردیا تھا)وصول کرنا جائز ہوگا؛کیوں کہ کمپنی سے خریدکر اپنے قبضہ میں لےلینے سے ڈراپ شپراس چیزکا مالک بن چکا ہے ، لہذاآگے اپنے کسٹمر کو وہ جیسے بھی بیچنا چاہے بیچ سکتاہے۔
لیکن اگر ڈراپ شپر کمپنی سے چیز خرید نےکے بعد قبضہ میں لینے سے پہلےآگےبیچتا ہےتو اس صورت میں ڈراپ شپر کااپنے کسٹمر سے مبیع کی ڈیلیوری چارجز (جس کو کمپنی نے ڈراپ شپر کومعاف کردیا تھا) وصول کرنا جائز نہ ہوگا؛کیوں کہ اس صورت میں بیع قبل القبض کی خرابی لازم آرہی ہےجوکہ جائز نہیں،لہذا اس صورت میں جب ڈراپ شپر کے لیے اس چیز کو قبضہ میں لینے سےپہلےآگے بیچنا جائز نہیں ہواتو کسٹمر سے ڈیلیوری چارچزوصول کرنابھی جائز نہیں ہوگا۔
تبين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"لايجوز بيع المنقول قبل القبض:لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام: «إذا ابتعت طعامًا فلاتبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا."
(کتاب البیوع، باب التولیة، فصل بيع العقار قبل قبضه، 80/4، ط: المطبعة الكبرى الأميرية القاهرة )
فتاوی شامی میں ہے:
"إذ من شرط المعقود عليه: أن يكون موجوداً مالاً متقوماً مملوكاً في نفسه، وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه، وأن يكون مقدور التسليم منح."
( کتاب البیوع، باب بیع الفاسد، 5/ 58، ط: سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء."
(كتاب الدعوى، فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل، 264/6 ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100948
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن