بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

دھوکہ دہی سے کسی سے خالی کاعذات پر دستخط لے کر اس کاعذ پرطلاق لکھنے کے بعد اس کی طرف منسوب کرنے کا حکم ۔


سوال

والد صاحب کے انتقال سے قبل  گھر کے کچھ ضروری کا عذات  پر میری والدہ نے مجھ سے دستخط لیے اور ساتھ ہی  ایک خالی کاعذ پر بھی مجھ  سے دستخط لیا،میں  نے  بناء کسی تشویش اس پر دستخط کر کے والدہ کو دیا ،کچھ عرصے  بعد میرے اور بیوی کے درمیان  گھریلو   معاملات پرجھگڑاہوا،بیوی اپنے والدین کے گھر چلی گئی  اس کے بعد مجھ سے میرے گھر والوں  نے طلاق کا مطالبہ کیا  ،لیکن میں نے انکار کیا  میرے اس انکار پر میری والدہ نے وہ صاف کاعذات استعمال کر کے  اس کو طلاق نامہ بناکر میری بیوی کے گھر بھیج دیا  ،جس پر میں نے  سسرال جاکر   اس کاعذ کو پھاڑ دیا اور ساری بات بتادی  کہ  یہ طلاق کے کاعذات میرے لکھے ہوئے نہیں اور نہ  ہی میری اجازت سے لکھی گئی ہے   ،اب والدہ کا کہنا ہے ،کہ بھلے تو نے طلاق نہیں دی  سب کو ان کاعذات کی نقل لوگوں کو  دکھاکر کہوں گی،  کہ اس نے اپنی   بیوی کوطلاق دی ہے  اور طلاق دینے کے باوجود  اپنی بیوی کے ساتھ رہتےہوئے  گناہ میں مبتلاہے ، آپ حضرات اس مسئلے کے بارے میں راہ نمائی  فرمائیں ۔

جواب

1)واضح  رہے کہ طلاق دینے  کا اختیار شریعت نے صرف شوہر کو دیا ہے ،شوہر کے والدین از خود اپنی بہو کو طلاق دینے کے مجاز نہیں ہیں اور نہ ان کی طرف سے د ی جانے والی طلاق واقع ہوتی ہے،  لہذا  صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ   شوہر نے نہ  تو زبانی طلاق دی   ہو اور نہ  ہی تحریر ی طلاق دی ہو ،  تو   سائل کی والدہ کاخالی کاعذ  پر سائل سے دستخط لے کر بعد میں اسے طلاق نامہ بناکر  سائل کی طرف منسوب کرنے سے طلاق واقع نہیں  ہوگی   ۔

2) والدہ کایہ کہنا  کہ اگر چہ تو (سائل )نے طلاق نہیں دی ہے، لیکن میں لوگوں کو اس کاعذات کی نقل دکھاکر یہ کہوں گی  کہ اس نے طلاق دی اور اس کے باوجود اپنی بیوی کے ساتھ رہتے ہوئے حرام کاری میں مبتلا ہے  ، بہتان تراشی اور گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہے، لہذا  سائل کی والدہ   ایساکرنے سے شدیدگناہ گارہوں گی، انہیں اس عمل سے اجتناب کرنالازم ہے۔

فتح القدیر میں ہے :

"وفي سنن ابن ماجه من طريق ابن لهيعة عن «ابن عباس رضي الله عنهما جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم رجل فقال: يا رسول الله سيدي زوجني أمته وهو يريد أن يفرق بيني وبينها، فصعد النبي صلى الله عليه وسلم المنبر فقال: يا أيها الناس ما بال أحدكم يزوج عبده من أمته ثم يريد أن يفرق بينهما، إنما ‌الطلاق ‌لمن ‌أخذ بالساق» ورواه الدارقطني أيضا من غيرها."

(‌‌كتاب الطلاق،‌‌فصل ويقع طلاق كل زوج إذا كان عاقلا بالغا،494/3،ط:دار الفكر)

صحیح بخاری میں ہے :

"حدثنا أبو معمر: حدثنا عبد الوارث، عن الحسين، عن عبد الله بن بريدة: حدثني يحيى بن يعمر: أن أبا الأسود الديلي حدثه، عن أبي ذر رضي الله عنه:أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: (‌لا ‌يرمي ‌رجل رجلا بالفسوق، ولا يرميه بالكفر، إلا ارتدت عليه، إن لم يكن صاحبه كذلك."

(كتاب الأدب،باب ما ينهى من السباب واللعن،2247/5،ط:دار ابن کثیر  دمشق )

کنزالعمال میں ہے :

"عن علي قال: ‌البهتان ‌على ‌البراء أثقل من السموات الحكيم."

(‌‌في كتاب الأخلاق من قسم الأفعال،‌‌الباب الثاني: في الأخلاق المذمومة،802/3،ط:مؤسسة الرسالة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601101866

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں