ایک شخص کی ایک دکان ہے، جس سے اس کا خاندان چلتا ہے،دکان کے علاوہ اس کے پاس کوئی اضافی اثاثہ نہیں ہے،اب کیا اس پر زکوٰۃ واجب ہے؟ اگر ہے تو کیسے ادا کرے گا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر دکان میں موجود مالِ تجارت نصاب کی بقدر ہے یا دیگر اموالِ زکوۃ کے ساتھ مل کر نصاب کی بقدر ہو تو اس کی زکوۃ ادا کرنا مالک پر ضروری ہے، جس کا طریقۂ کار یہ ہےکہ پوری دکان کے قابلِ فروخت سامان کا جائزہ لے کر مارکیٹ میں قیمتِ فروخت کے حساب سے اس کی مالیت کی تعیین کریں، اس میں سے اپنے اوپر واجب الادا اخراجات مثلاً جو ادائیگیاں باقی ہیں یا دیگر قرض وغیرہ منہا کریں، اور اس کے بعد جتنی مالیت بچے اگر وہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہے تو اس کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کردیں، البتہ دکان کی مالیت پر زکوۃ واجب نہیں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابًا من الورق والذهب، كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة، كذا في التبيين. و تعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة، كذا في المضمرات."
(كتاب الزكاة، الباب الثالث في زكوة الذهب، الفصل في العروض، ج:1، ص:179، ط:مكتبه رشيديه)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144609101464
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن