بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوکان تجارت کے لیے دینا اور نفع میں شراکت داری کرنا


سوال

زید نے اپنی دکان میں سے نصف جگہ بکر کو دی ہے،  بکر اس میں مال کو بیچےگا اس کا  40%  فائدہ  زید کو دےگا اور  60% بکر خود  رکھےگا تو  کیا زید کے  لیے یہ  پیسہ لینا   جائز ہے یا نہیں؟ سود تو نہیں ہوگا؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  مذکورہ طریقہ کار پر نفع میں شراکت داری  شرعًا درست نہیں، تا وقتیکہ زید  و بکر تجارتی  مال میں بھی شریک نہ ہوجائیں،  پس زید اور  بکر کو تجارتی  مال میں پہلے شرکت کریں، اور نفع  و نقصان میں فیصدی  ( 40 اور 60 ) کے  تناسب سے شریک ہوں، یا زید دوکان  کا   کرایہ متعینہ طور پر مقرر کرے ،  جہاں بکر تجارت کرے، اس  صورت  میں تجارتی  نفع  و نقصان بکر  کا ہوگا، زید صرف کرایہ کا حق دار ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أَمَّا شَرِكَةُ الْعِنَانِ فَهِيَ أَنْ يَشْتَرِكَ اثْنَانِ فِي نَوْعٍ مِنْ التِّجَارَاتِ بُرٍّ أَوْ طَعَامٍ أَوْ يَشْتَرِكَانِ فِي عُمُومِ التِّجَارَاتِ وَلَا يَذْكُرَانِ الْكَفَالَةَ خَاصَّةً، كَذَا فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ، وَصُورَتُهَا أَنْ يَشْتَرِكَ اثْنَانِ فِي نَوْعٍ خَاصٍّ مِنْ التِّجَارَاتِ أَوْ يَشْتَرِكَانِ فِي عُمُومِ التِّجَارَاتِ وَلَا يَذْكُرَانِ الْكَفَالَةَ وَالْمُفَاوَضَةَ فِيهَا فَتَضَمَّنَتْ مَعْنَى الْوَكَالَةِ دُونَ الْكَفَالَةِ حَتَّى تَجُوزَ هَذِهِ الشَّرِكَةُ بَيْنَ كُلِّ مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ التِّجَارَةِ، كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ. فَتَجُوزُ هَذِهِ الشَّرِكَةُ بَيْنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْبَالِغِ وَالصَّبِيِّ الْمَأْذُونِ وَالْحُرِّ وَالْعَبْدِ الْمَأْذُونِ فِي التِّجَارَةِ وَالْمُسْلِمِ وَالْكَافِرِ، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ. وَفِي التَّجْرِيدِ \" وَالْمُكَاتَبِ \"، كَذَا فِي التَّهْذِيبِ. .... وَأَمَّا شَرْطُ جَوَازِهَا فَكَوْنُ رَأْسِ الْمَالِ عَيْنًا حَاضِرًا أَوْ غَائِبًا عَنْ مَجْلِسِ الْعَقْدِ لَكِنْ مُشَارًا إلَيْهِ، وَالْمُسَاوَاةُ فِي رَأْسِ الْمَالِ لَيْسَتْ بِشَرْطٍ وَيَجُوزُ التَّفَاضُلُ فِي الرِّبْحِ مَعَ تَسَاوِيهِمَا فِي رَأْسِ الْمَالِ، كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ."

(كتاب الشركة، الْبَابُ الثَّالِثُ فِي شَرِكَةِ الْعِنَانِ، الْفَصْلُ الْأَوَّلُ فِي تَفْسِيرِهَا وَشَرَائِطِهَا وَأَحْكَامِهَا، ٢ / ٣١٩، ط: دار الفكر)

البحر الرائق میں ہے:

"وَأَمَّا شَرَائِطُ الْمَعْقُودِ عَلَيْهِ فَأَنْ يَكُونَ مَوْجُودًا مَالًا مُتَقَوِّمًا مَمْلُوكًا فِي نَفْسِهِ وَأَنْ يَكُونَ مِلْكَ الْبَائِعِ فِيمَا يَبِيعُهُ لِنَفْسِهِ وَأَنْ يَكُونَ مَقْدُورَ التَّسْلِيمِ فَلَمْ يَنْعَقِدْ بَيْعِ الْمَعْدُومِ وَمَا لَهُ خَطَرُ الْعَدَمِ ... وَخَرَجَ بِقَوْلِنَا وَأَنْ يَكُونَ مِلْكًا لِلْبَائِعِ مَا لَيْسَ كَذَلِكَ فَلَمْ يَنْعَقِدْ بَيْعُ مَا لَيْسَ بِمَمْلُوكٍ لَهُ، وَإِنْ مَلَكَهُ بَعْدَهُ."

(كتاب البيع، شَرْطُ الْعَقْدِ، ٥ / ٢٧٩ - ٢٨٠، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200586

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں