جناب میرے ابو اور چچا کا کاروبار ایک ہے، اور ہم ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، ساتھ کھاتے پیتے ہیں، مطلب ہم آپس میں ہر چیز میں شریک ہیں، الگ نہیں ہیں، اور میں بھی اپنے ابو اور چچا کی دکان پر ہی کام کرتا ہوں ، ان کی غیر موجودگی میں کاونٹر پر میں بیٹھتا ہوں، سارا حساب کتاب میں کرتا ہوں، اور دوکاندارو ں سے ابرائی یعنی پیسے آتے ہیں، وہ بھی میرے پاس آتے ہیں، جب شام کے وقت میری چھٹی ہوتی ہے، تو ابو یا چاچو مجھے میری 500 سے 100 جتنے پیسوں کی مجھے ضرورت ہوتے ہیں ، وہ مجھے دے دیتے ہے،یہ تو میری ہر روز کی دیہاڑی مجھے ملتی ہے، اب اس کے علاوہ کبھی کبھار مجھے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، تو میں گلے سے لےلیتا ہوں، اب اگر میں ان پیسوں کا ابو اور چاچو کو نہ بتاؤں اور بغیر بتاۓ لےلوں ، تو کیا اس پر میں گناہ گار ہوں گا؟ اور اس کے بارے میں مجھ سے آخرت میں سوال جواب ہوگا؟ راہ نمائی فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں اگر سائل والد اور چاچا سے اجازت لے کر گلے رقم لے گا تو سائل کا لینا درست ہوگا، اور وہ گناگار نہ ہوگا، لیکن اگر سائل اپنے والد اور چاچا کی اجازت یا علم میں لاۓ بغیر اپنی مرضی سے گلے رقم لے گا تو گناہ گار ہوگااور یہ صریح چوری ہوگی، جس کا ضمان سائل پر لازم ہوگا، سائل کی اگر ضروریات زیادہ ہیں، تو روزانہ کے اعتبار سے مناسب اجرت مقرر کروالے یا ماہانہ بنیاد پر تنخوہ کا معاملہ کرلے۔
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ میں ہے:
"وعن أبي حرة الرقاشي، عن عمه - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - " «ألا لا تظلموا، ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني(إلا بطيب نفس ) أي: بأمر أو رضا منه."
(باب الغصب والعارية،1974/5، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."
(كتاب الحدود،61/4،ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144505100701
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن