میں نے 9 اگست 2023 کو کورٹ میرج کی تھی اور تنہائی میں ملے بھی تھے اور میاں بیوی والا تعلّق بھی قائم کیا تھا، لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی، ہم نے یہ تعلّق اپنے آفس اور گھر میں قائم کیا تھا، پھر 5 دسمبر 2024 کو میں نے اپنی بیوی کو طلاق دےدی تھی، اور الفاظِ طلاق یہ ہیں: ”میں آپ کو طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں “ یہ الفاظ میں نے کال پر اپنی بیوی کو بولے ہیں، نکاح کے موقع پر ایک لاکھ روپے مہر مقرر کیا گیا تھا ، اب وہ لڑکی اور اس کے گھر والے مجھ سے مہر کا مطالبہ کررہے ہیں تو کیا ان کا یہ مطالبہ کرنا درست ہے، ہم پر مہر ادا کرنا شرعاً لازم ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں نکاح کے بعد ، رخصتی سے پہلے چوں کہ سائل اور اس کی بیوی کے درمیان میاں بیوی والے تعلّقات قائم ہوگئے تھے تو اس کے بعد فون پر سائل نے جو اپنی بیوی کو یہ کہا کہ :”میں آپ کو طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں ، طلاق دیتا ہوں “ تو اس سے بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، دونوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے، بیوی، شوہر (سائل ) پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب شوہر کے لیے رجوع کرنا یا دوبارہ اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے ، مطلقہ پر عدت (مکمل تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو، اور حمل ہونے کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک) لازم ہے، عدت مکمل کرکے دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
باقی نکاح میں جو ایک لاکھ روپے مہر طے ہو اتھا وہ ا گر سائل نے اب تک ادا نہیں کیا ہے تو سائل پر مکمل مہر (ایک لاکھ روپے) کی ادائیگی لازم ہے، لڑکی والوں کا مطالبہ درست ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}."
(کتاب الطلاق،فصل فی حکم الطلاق البائن، 3/ 187، ط: دارالكتب العلمية)
بدائع الصنائع میں ہے:
"(وأما) بيان ما يتأكد به المهر فالمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة:الدخول والخلوة الصحيحة وموت أحد الزوجين".
(كتاب النكاح، فصل :وأما بيان ما يتأكد به المهر، 2/ 291، ط:سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144606101131
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن