1۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے مبارکہ میں ”شافٍ“ بھی ہے یا نہیں؟ اور اس اسم کا مطلب کیا ہے؟
2۔ نیز ”درودِ شافیہ کبیر“کے نام سے ایک درود ہے، شرعًا اس درود کا پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ وہ درود یہ ہے:
"لَا إلهَ إلا اللهَ. اللّٰهُم صَلّ وسَلِّمْ وبارِكْ عَلىٰ سَيِّدِنا ومَوْلانا شَافِيْ."
1۔ واضح رہے کہ ”شَافٍ“ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے، اس کا معنیٰ ہے: ”معالج، علاج کرنے والا“، چنانچہ جب ”شَافٍ“ کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جائے تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ ”وہ ہستی جو انسانیت کو بامرِ خداوندی کفر و ضلالت کی بیماریوں سے نکال کر ایمان و ہدایت کی صحت سے آراستہ کرنے والی ہے، یا ظاہری و جسمانی بیماریوں سے تحفظ کی تدابیر اور اس سے شفاء کے اسباب بتانے والی ذات“، باقی حقیقی شفاء دینے والی ذات اللہ تعالیٰ ہے۔
2۔ ”درود شافیہ کبیر“ کے نام سے موسوم مذکورہ درود شریف ماثور و منقول نہیں ہے اور یہ درود شریف باوجود تلاش و تتبع بسیار کے کسی مستند کتاب میں نہیں مل سکا۔ نیز عربی قواعد کے لحاظ سے مذکورہ درود میں سقم موجود ہے اور اسکی ترکیب و ترتیب بھی درست نہیں ہے، بایں طور پر کہ لفظِ ”شافی“ کا ماقبل کے ساتھ کوئی ربط و تعلق نہیں ہے اور اس کا منسوب الیہ بھی معلوم نہیں کہ اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف؟ لہٰذا اس کا پڑھنا خواہ حصولِ شفاء کے لیے ہو یا بطورِ وظیفہ ہو، درست نہیں ہوگا، بلکہ ماثور و منقول درود ہی پڑھنی چاہیے۔ البتہ اگر ”شافی“ کی جگہ ”الشافی“ پڑھا جائے، جس کی وجہ سے اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوگی، یا لفظِ ”شافی“ سے پہلے حرفِ نداء ”یا“ اضافہ کرکے ”یا شافی“پڑھا جائے یا اسے مقدر ہی مان لیا جائے، جس کی وجہ سے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہوگی، تو ایسی صورت میں اس درود کا پڑھنا درست ہوگا۔
”القاموس المحیط“ میں ہے:
"الشفاء: الدوا، ج: أشفية، جج: أشافي. وشفاه يشفيه: برأه، وطلب له الشفاء، كأَشْفاهُ."
(باب الواو والياء، فصل الشين، ص:1300، ط:مؤسسة الرسالة بيروت)
”لسان العرب“ میں ہے: by
"ولما أمر النبي، صلى الله عليه وسلم، حسان بهجاء كفار قريش ففعل قال: شفى واشتفى؛ أراد أنه شفى المؤمنين واشتفى بنفسه أي اختص بالشفاء، وهو من الشفاء البرء من المرض، يقال: شفاه الله يشفيه، واشتفى افتعل منه، فنقله من شفاء الأجسام إلى شفاء القلوب والنفوس."
(و- ي، فصل الشين المعجمة، ج:14، ص:437، ط:دار صادر بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607101104
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن