1۔ایک آدمی نے ارادہ کیاہے کہ دوسری شادی کرے ، دوسری عورت سے نکاح ہواہے، اب شادی قریب ہے تو شوہر نے جب نئی بیوی کےلئے انگوٹھی بنوائی تو پہلی کے لیے بھی بنوائی، اب یہ معلوم کرنا ہے کہ شوہر شادی کے موقع پر نئی بیوی کے لیے جو اشیاء خریدے گا، مثلاً فرنیچر، نئے کپڑے وغیرہ تو کیا یہ چیزیں پہلی بیوی کے لئے بھی خریدنی ہوں گی؟
2۔ایک سے زائد بیویوں کے درمیان برابری کا کیاحکم ہے؟اور کیا پہلی بیوی سے اجازت ضروری ہے؟
1۔ شادی کے موقع پر نئی دولہن کے لیے جو ضروری ساز وسامان مثلا: عروسی جوڑا، ضروری کپڑے، برتن، فرنیچر وغیرہ جو خریدا جائے بعینہ ویسی ہی تمام چیزیں پہلے سے موجود بیوی کو مہیا کرنا شرعاً ضروری نہیں ۔
2۔ جس شخص کی ایک سے زائد بیویاں ہوں، اس کے لیے تمام بیویوں کے درمیان لباس، پوشاک، نان ونفقہ، رہائش کی فراہمی ، شب باشی غرض تمام امور میں برابری کرنا شرعاً ضروری ہے، قرآن مجید میں بیویوں کے درمیان برابری نہ کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے، جب کہ احادیث میں ایسے شخص کے بارے میں سخت وعیدات مذکور ہیں، جو بیویوں کے درمیان مساوات نہ کرتا ہو، لہذا رخصتی ہوجانے کے بعد مذکورہ شخص پر بیویوں کے درمیان برابری کرنا ضروری ہوگا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
"وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوها كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كانَ غَفُوراً رَحِيماً ." (سورة النساء، الآیة:129 ،130)
ترجمہ:” اور تم سے یہ تو کبھی نہ ہوسکے گا کہ سب بیبیوں میں برابری رکھو تو تمہارا کتنا ہی جی چاہے تو تم بالکل توا یک ہی طرف نہ دھل جاؤ جس سے اس کو ایسا کردو جیسے کوئی ادھر میں لٹکی ہو اور اگر اصلاح کرلو اور احیتاط رکھو تو بلاشبہ اللہ تعالی بڑی مغفرت والے بڑی رحمت والے ہیں ۔“(بیان القرآن)
تفسیر البغوی میں ہے:
"قوله تعالى: ولن تستطيعوا أن تعدلوا بين النساء، أي: لن تقدروا أن تسووا بين النساء في الحب وميل القلب، ولو حرصتم على العدل، فلا تميلوا، أي: إلى التي تحبونها، كل الميل في القسم والنفقة، أي: لا تتبعوا أهواءكم أفعالكم، فتذروها كالمعلقة، أي فتدعوا الأخرى كالمعلقة لا أيما ولا ذات بعل. وقال قتادة: كالمحبوسة، وفي قراءة أبي بن كعب كأنها مسجونة.ع وروي عن أبي قلابة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقسم بين نسائه، فيعدل ويقول: «اللهم هذا قسمي فيما أملك فلا تلمني فيما تملك ولا أملك» ، ورواه بعضهم عن أبي قلابة، عن عبد الله بن يزيد، عن عائشة رضي الله عنها متصلا. وروي عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من كانت له امرأتان فمال إلى إحداهما جاء يوم القيامة وشقه مائل. وإن تصلحوا وتتقوا، الجور، فإن الله كان غفورا رحيما."
(سورة النساء، الآیة: 129/ 130، ج:1، ص:709، ط: دار إحیاء التراث العربی)
سنن الترمذی میں ہے:
"عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقسم بين نسائه، فيعدل، ويقول: «اللهم هذه قسمتي فيما أملك، فلا تلمني فيما تملك ولا أملك."
(أبواب النکاح، باب ماجاء فی التسویة بین الضرائر، ج:3، ص:438، الرقم:1140، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)
ترجمہ:”حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ اپنی بیویوں کے درمیان باری تقسیم کرتے ہوئے فرماتے : اے اللہ ! یہ میری تقسیم ہے جس پر میں قدرت رکھتاہوں ، لیکن جس کی قدرت تو رکھتاہے، میں نہیں رکھتا، اس کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا۔“
وفیه أیضاً :
"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا كان عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط."
(أبواب النکاح، باب ماجاء فی التسویة بین الضرائر، ج:3، ص:439، الرقم:1141، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)
ترجمہ:”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ نے فرمایا: جب کسی شخص کے پاس دو بیویاں ہوں اور ان کے درمیان انصاف سے کام نہ لے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئےگاکہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہوگا۔“
بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:
"ومنها، وجوب العدل بين النساء في حقوقهن.
وجملة الكلام فيه أن الرجل لا يخلو إما أن يكون له أكثر من امرأة واحدة وإما إن كانت له امرأة واحدة، فإن كان له أكثر من امرأة، فعليه العدل بينهن في حقوقهن من القسم والنفقة والكسوة، وهو التسوية بينهن في ذلك حتى لو كانت تحته امرأتان حرتان أو أمتان يجب عليه أن يعدل بينهما في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة.
والأصل فيه قوله عز وجل {فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة} [النساء: 3] عقيب قوله تعالى {فانكحوا ما طاب لكم من النساء مثنى وثلاث ورباع} [النساء: 3] أي: إن خفتم أن لا تعدلوا في القسم والنفقة في نكاح المثنى، والثلاث، والرباع، فواحدة ندب سبحانه وتعالى إلى نكاح الواحدة عند خوف ترك العدل في الزيادة، وإنما يخاف على ترك الواجب، فدل أن العدل بينهن في القسم والنفقة واجب، وإليه أشار في آخر الآية بقوله {ذلك أدنى ألا تعولوا} [النساء: 3] أي: تجوروا، والجور حرام، فكان العدل واجبا ضرورة؛ ولأن العدل مأمور به لقوله عز وجل {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 90] على العموم والإطلاق إلا ما خص أو قيد بدليل.
ويستوي في القسم البكر، والثيب والشابة والعجوز، والقديمة والحديثة والمسلمة والكتابية؛ لما ذكرنا من الدلائل من غير فصل؛ ولأنهما يستويان في سبب وجوب القسم، وهو النكاح، فيستويان في وجوب القسم.
(کتاب النکاح، فصل وجوب العدل بین النساء، ج:2، ص:332، ط: دار الکتب العلمیة)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"ومما يجب على الأزواج للنساء العدل والتسوية بينهن فيما يملكه والبيتوتة عندها للصحبة والمؤانسة لا فيما لا يملك وهو الحب والجماع كذا في فتاوى قاضي خان. والعبد كالحر في هذا كذا في الخلاصة. فيسوي بين الجديدة والقديمة والبكر والثيب والصحيحة والمريضة والرتقاء والمجنونة التي لا يخاف منها والحائض والنفساء والحامل والحائل والصغيرة التي يمكن وطؤها والمحرمة والمولى منها والمظاهر منها كذا في التبيين.
القسم الليل ولا يجامع المرأة في غير يومها ولا يدخل بالليل على التي لا قسم لها ولا بأس أن يدخل عليها بالنهار لحاجة."
(کتاب النکاح، الباب الحادی عشر فی القسم، ج:1، ص:340، ط: المطبعة الکبریٰ الأمیریه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607102520
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن