بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

دوسرے ملک میں مقیم افراد اپنے بچوں کا صدقہ فطر کس قیمت کے حساب سے ادا کریں گے


سوال

اگر کوئی شخص اپنے  ملک سے باہر ہوتووہ اپنے نابالغ  بچوں کا  صدقہ فطر   پاکستان کے حساب سے دے گا،  یااس ملک کے حساب سے جس میں وہ رہتا ہے ؟

جواب

صدقۂ  فطر  کی  مقدار  گندم کے حساب سے  پونے دو کلو گندم ہے اور کھجور، جو  اور کشمش  کے  حساب  سے  ساڑھے تین کلو  کھجور، جَو  اور کشمش  ہے، چاہےکہیں بھی ادا کیا جائے، اور اگر قیمت ادا کرنی ہے تو جہاں ادائیگی کرنے والا موجود ہے  وہاں کا اعتبار ہوگا۔لہذا صورت مسئولہ میں سائل جس ملک میں مقیم ہے،اس پر اپنا اور اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر اسی ملک کے نرخ کے اعتبار سے ادا کرنا لازم ہوگا خواہ یہ قیمت وہ اسی ملک میں ادا کرے یا اس  کی اجازت سے پاکستان میں ادا کی جائے۔ البتہ  بیوی اور   بالغ بچے جو   پاکستان میں ہیں، ان پر اپنا صدقہ فطر  پاکستان کے نرخ کے مطابق ادا کرنا لازم ہوگا، لہذا  وہ خود پاکستان میں پاکستان کی قیمت کے حساب سے دے سکتے ہیں،  اور اگر مذکورہ شخص   ان کی طرف سے ادا کرنا چاہتا  ہے  تو ایسی قیمت لگانا بہتر ہے جس میں فقراء کا زیادہ فائدہ ہو۔

رد المحتار  میں ہے :

"والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح، وأن رءوسهم تبع لرأسه. ...(قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه (قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية، كما في الشرنبلالية، وهو المذهب كما في البحر؛ فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه".

(کتاب الزکاۃ، فروع فی مصرف الزکاۃ، ج:2، ص: 355، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ثم المعتبر في الزكاة مكان المال حتى لو كان هو في بلد، وماله في بلد آخر يفرق في موضع المال، وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح، كذا في التبيين. وعليه الفتوى، كذا في المضمرات". 

 (کتاب الزکاۃ، فصل ما یوضع فی بیت المال من الزکاۃ، ج:1، ص: 190، ط: دار الفکر، بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609101711

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں