بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

دوسری بیوی کا اپنی باری کا حق چھوڑنے کے بعد دوبارہ مطالبہ / ایک بیوی کے پاس زیادہ رہنے کے بعد دوسری کے پاس زیادہ رہنا


سوال

 1: زید نے دوسری شادی زینب سے کی، شادی کرنے سے چند مہینے پہلے زینب کے گھر والوں سے یہ شرط لگائی تھی کہ وہ زینب کے پاس صرف 2 رات رہے گا، باقی راتیں پہلی بیوی کے پاس گزارے گا تو زینب کے گھروالوں نے شادی سے پہلے ہاں کردی، لیکن شادی کے بعد زینب کہہ رہی ہے میں انصاف معاف نہیں کروں گی، زید کا کہنا ہے کہ میں معاف کرواچکا ہوں شادی سے پہلے، اب تمہارے معاف نہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، برائے مہربانی اس مسئلے کی وضاحت فرمائیں۔

2 : زید کی پہلی بیوی اپنی مرضی سے 20 دن کے لیے میکے گئی ، جب آئی تو زید نے دوسری بیوی زینب سے کہا میں نے 20 راتیں تمہیں دی ہیں، اب 20 اسے دوں گا ؟ شریعت کی رو سے زید کا یہ حساب صحیح ہے ؟ جب کہ پہلی میکے گئی ہوئی تھی اسی لیے 20 دن زینب کو ٹائم دیا، اگر نہ جاتی تو ٹائم نہیں دیتے۔

جواب

1۔  بیویوں کے درمیان  رہن، سہن، کھلانے پلانے، اور شب باشی وغیرہ میں انصاف  کرنا بیوی کے حق کی  وجہ سے ہے،  اگر  کوئی بیوی اپنا حق خود معاف کرنے لیے تیار ہے تو وہ حق چھوڑ سکتی ہے،  البتہ اس بیوی کو مستقبل میں دوبارہ  اپنے اس حق کے مطالبہ کا اختیار باقی رہے گا،  لہذا زینب اپنی باری کا برابری کی بنیاد پر دوبارہ  مطالبہ کرسکتی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 206):

" (ولو) (تركت قسمها) بالكسر: أي نوبتها (لضرتها) (صح، ولها الرجوع في ذلك) في المستقبل،لأنه ما وجب فما سقط

(قوله لأنه) أي حقها وهو القسم ما وجب أي لم يجب بعد، فما سقط أي فلم يسقط بإسقاطها ح،"۔

2۔  اگر زید نے پہلے سے ہی بیس بیس دن کی باری مقرر نہ کی ہو، بلکہ اتفاقا ایک بیوی کے میکہ جانے کی وجہ سے وہ دوسری بیوی کے ہاں بیس دن رہا تو اب پہلی کے میکہ میں آنے کے بعد  اگر وہ بھی بیس دن  اپنے پاس رہنے کا مطالبہ کرے تو اس کو اس مطالبہ کا حق نہیں ہوگا، اب  زید کو دونوں  بیویوں کے درمیان از سر نو برابری کرنا ضروری ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 205):

"(ولو) (أقام عند واحدة شهرا في غير سفر ثم خاصمته الأخرى) في ذلك (يؤمر بالعدل بينهما في المستقبل وهدر ما مضى وإن أثم به) لأن القسمة تكون بعد الطلب 

(قوله ولو أقام عند واحدة شهرا) أي قبل الخصومة أو بعدها خانية (قوله في غير سفر) أما إذا سافر بإحداهما ليس للأخرى أن تطلب منه أن يسكن عندها مثل التي سافر بها ط عن الهندية (قوله وهدر ما مضى) فليس لها أن تطلب أن يقيم عندها مثل ذلك ط عن الهندية. والذي يقتضيه النظر أن يؤمر بالقضاء إذا طلبت لأنه حق آدمي وله قدرة على إيفائه فتح: وأجاب في النهر بما ذكره الشارح من التعليل. قال الرحمتي: ولأنه لا يزيد على النفقة وهي تسقط بالمضي (قوله لأن القسمة تكون بعد الطلب) علة لقوله هدر ما مضى، وقدمنا عن البدائع أن سبب وجوب القسم عقد النكاح ولهذا يأثم بتركه قبل الطلب وهذا يؤيد بحث الفتح. وقد يجاب بأن المعنى أن الإجبار على القسمة من القاضي يكون بعد الطلب وإلا لزم أنها لو طالبته بها ثم جار يلزمه القضاء.

وهو مخالف لما قدمناه عن الخانية من قوله قبل الخصومة أو بعدها، وكذا تعليل المسألة في البزازية وغيرها بأن القسم لا يصير دينا في الذمة فإنه يشمل ما بعد الطلب".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 207):

"(ويقيم عند كل واحدة منهن يوما وليلة) لكن إنما تلزمه التسوية في الليل، حتى لو جاء للأولى بعد الغروب وللثانية بعد العشاء فقد ترك القسم، ولا يجامعها في غير نوبتها، وكذا لا يدخل عليها إلا لعيادتها ولو اشتد: ففي الجوهرة: لا بأس أن يقيم عندها حتى تشفى أو تموت انتهى، يعني إذا لم يكن عندها من يؤنسها.

ولو مرض هو في بيته دعا كلا في نوبتها لأنه لو كان صحيحا وأراد ذلك ينبغي أن يقبل. نهر (وإن شاء ثلاثا) أي ثلاثة أيام ولياليها (ولا يقيم عند إحداهما أكثر إلا بإذن الأخرى) خاصة

(قوله ولا يقيم عند إحداهما أكثر إلخ) لم يبين ما لو أقام أكثر من ثلاثة أيام هل يهدر الزائد أو يقيم عند الأخرى بقدر ما أقام عند الأولى ثم يقسم بينهما ثلاثة وثلاثة أو يوما ويوما؛ والظاهر الثاني لأن هدر ما مضى فيما إذا أقام عند إحداهما لا على سبيل القسم كما تقدم وهنا في الإقامة على سبيل القسم فلا يهدر شيء" 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200739

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں