میری شادی کو 22 ۔23 سال ہوگے ہیں ،میرے اور بیوی کے درمیان عرصہ دراز سے ناچاقی ہے(لڑائی جھگڑا ہونا میری باتوں کو نہ ماننا) اس کی وجہ یہ تھی کہ میری اس بیوی سے صرف ایک بیٹی ہوئی، اس کے بعد اور کوئی اولاد نہ ہوئی ،ڈاکٹری ،طبی ،حکیمی ہر لحاظ سے علاج کرانے کے باوجود ، جس کے بعد میں نے دوسری شادی کرنے کا سوچا ،جس کی وجہ سے میری بیوی کا میرے ساتھ رویہ بالکل بدل گیا ،گھر میں توڑ پھوڑ کرنا ،والدین کو برا بھلا کہنا، پھر ایک دن مجھے مارنا بھی پڑا، اب بات یہاں تک آگئی ہےکہ اس کے والد بھائی وغیرہ طلاق کا باربار مطالبہ کر رہے ہیں اور میں طلاق دینے پر آمادہ نہیں ہوں، یہاں تک کہ کئی مرتبہ جرگے بھی ہوئے ہیں، مگر اب اس کے والد نے یہ بات کہی ہے کہ ہم شریعت کے مطابق تمہارے ساتھ فیصلہ کریں گے، اب شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے کہ میں اس کو طلاق نہیں دینا چاہتا ہوں اور اس کے گھر والے طلاق کا مطالبہ کر رہے ہیں ؟
اسلام نے ایک مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اسے یقین ہو کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان برابری قائم رکھ سکے گا اور ان کے حقوق ادا کر سکے گا۔ اگر اسے اس بات کا یقین نہ ہو تو پھر اسے ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
لہٰذاصورت مسئولہ میں اگر شوہر کو یقین ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد اپنی دونوں بیویوں کے درمیان انصاف کر سکے گا اور ان کے حقوق ادا کرے گا، تو اسے دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے اور اسے اس سے روکا نہیں جا سکتا، بلکہ یہ اس کا شرعی حق ہے۔ اس لیے سائل کی بیوی یا اس کے سسرال والوں کا اسے دوسری شادی سے روکنا جائز نہیں ہے۔
اسی طرح سائل کا دوسری شادی کرنا کوئی ایسا عذر نہیں ہے، جس کی بنیاد پر اس کی بیوی اس سے طلاق کا مطالبہ کرے۔ بلاوجہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ "اللہ تعالیٰ کو حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔
لہٰذاسائل کے سسرال والوں کو چاہیے کہ اپنی بیٹی کے گھر کو بسانے کی کوشش کریں، صبر و تحمل سے کام لیں اور رشتوں کو مضبوط رکھیں۔ معمولی باتوں پر ناراض ہو کر بیٹی کے لیے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرنے سے گریز کریں۔
تفسیر بیان القرآن للتھانوی میں ہے :
﴿فَٱنكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَآءِ مَثۡنَىٰ وَثُلَٰثَ وَرُبَٰعَۖ فَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا تَعۡدِلُواْ فَوَٰحِدَةً أَوۡ مَا مَلَكَتۡ أَيۡمَٰنُكُمۡۚ ذَٰلِكَ أَدۡنَىٰٓ أَلَّا تَعُولُواْ( 3) ﴾
ترجمہ:اور عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں نکاح کرلودو عورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چار چار عورتوں سے پس اگر تم کو احتمال ہوکہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی اس امر میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب تر ہے
(سورة النساء،آية:3،ج :1،ص:322،ط:مكتبه رحمانيه لاهور)
تفسیر روح المعانی میں ہے:
"فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدةكأنه لما وسع عليهم أنبأهم أنه قد يلزم من الاتساع خوف الميل فالواجب حينئذ أن يحترزوا بالتقليل فيقتصروا على الواحدة، والمراد فإن خفتم ألا تعدلوا فيما بين هذه المعدودات ولو في أقل الأعداد المذكورة كما خفتموه في حق اليتامى، أو كما لم تعدلوا في حقهن فاختاروا، أو الزموا واحدة واتركوا الجميع بالكلية،"
(سورة النساء،آية:3،ج:2،ص:406،ط:دار الكتب العلمية - بيروت)
سنن ابو داؤد میں ہے :
"عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق"
(كتاب الطلاق،باب طلاق السنة ،ج:3،ص:505 ،ط:دار الرسالة العالمية)
عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے :
"وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من أبغض الحلال إلى الله الطلاق، وقال: تزوجوا ولا تطلقوا فإن الطلاق يهتز منه العرش، وقال: لا تطلقوا النساء إلا من ريبة فإن الله لا يحب الذواقين ولا يحب الذواقات، وقال: ما حلف بالطلاق ولا استحلف به إلا منافق."
ترجمہ:اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔نکاح کرو، طلاق نہ دو، کیونکہ طلاق سے عرش الٰہی لرز اٹھتا ہے۔ اور فرمایا:عورتوں کو صرف اس وقت طلاق دو جب کوئی شبہ (بدچلنی کا یا بہت سنگین وجہ) ہو، کیونکہ اللہ نہ تو بہت زیادہ چکھنے والے مردوں کو پسند کرتا ہے، نہ عورتوں کو۔جو شخص طلاق کی قسم کھاتا ہے یا طلاق کے ذریعے کسی کو قسم دیتا ہے، وہ منافق ہے۔
(كتاب النكاح،باب قول الله تعالى ياايها النبى اذا طلقتم النساء،ج:20،ص: 226،ط:دار إحياء التراث العربي، ودار الفكر - بيروت)
مشکوۃ المصابیح میں ہے:
عن ثوبان قال:" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة سألت زوجها طلاقا في غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة". رواه أحمد والترمذي وأبو داود وابن ماجه والدارمي."
ترجمہ: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا"جو عورت اپنے خاوند سے بلاضرورت طلاق مانگےاس پر جنت کی بو حرام ہوگی "(مظاہر حق)
(كتاب النكاح ،باب الخلع والطلاق،ج:2،ص، 978،ط:المكتب الإسلامي - بيروت)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144609101870
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن