دوسری شادی کرنے کی صورت میں بیوی کے کیا حقوق ہوتے ہیں؟
دوسری شادی کرنے کی صورت میں دوسری بیوی کے وہی حقوق ہوتے ہیں جو پہلی بیوی کے ہوتے ہیں،البتہ دوسری شادی کرنے کے بعد بیویوں کے درمیان انصاف کرنا ضروری ہے،یعنی کھانے پینے میں لباس میں رہائش میں اورشب باشی میں برابری کرنا ضروری ہے،ان چیزوں میں کسی ایک کے ساتھ زیادتی کرنے کی صورت میں آخرت میں پکڑ کا خطرہ ہے۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا﴾." (سورۃالنساء:آیت:3)
ترجمہ:
"اور اگر تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے"۔
( بیان القرآن ، ص:91، ط:میر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ومنها، وجوب العدل بين النساء في حقوقهن.
وجملة الكلام فيه أن الرجل لا يخلو إما أن يكون له أكثر من امرأة واحدة وإما إن كانت له امرأة واحدة، فإن كان له أكثر من امرأة، فعليه العدل بينهن في حقوقهن من القسم والنفقة والكسوة، وهو التسوية بينهن في ذلك حتى لو كانت تحته امرأتان حرتان أو أمتان يجب عليه أن يعدل بينهما في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة".
(کتاب النکاح، فصل وجوب العدل بين النساء في حقوقهن، ج:2، ص:332، ط:مطبعة الجمالية بمصر)
سنن ابی داود میں ہے:
"عن أبي هُريرة، عن النبيَّ صلى الله عليه وسلم قال: "مَن كانت له امرأتانِ، فمال إلى إحداهما جاء يَومَ القيامَةِ وشِقُّه مَائِلٌ".
(كتاب النكاح، باب في القَسم بين النساء، ج:3، 479، حدیث:2133، ط:دار الرسالة العالمية)
ترجمہ:
"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ: جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور (وہ ان دونوں بیویوں میں سے) کسی ایک (بیوی)کی طرف مائل ہو(یعنی ایک بیوی کے حقوق ادا کرے اور دوسری کے حق کا خیال نہ کرے) تو قیامت کے روز وہ شخص اس حالت میں آئے گا کہ اس کے جسم کا آدھا حصہ گرا ہوا یعنی اپاہج ہو گا"۔
(سنن ابی داود مترجم، ج:2، ص:170، ط:بیت العلم لاہور)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101843
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن