میں نے اپنی بیوی کو حالتِ حمل میں گھر میں چھوڑ کر، اس کی رضامندی سے بیرونِ ملک سفر کیا اور اس کا خرچہ بھی دیتا رہا۔لیکن وضع حمل کے بعد وہ اپنے والدین کے گھر چلی گئی اور مجھ سے بات چیت بند کر دی۔ نہ وہ مجھ سے ملاقات کرتی ہے اور نہ ہی بچے سے ملنے دیتی ہے،بلکہ اس کے والدین بھی مجھ سے رابطہ نہیں رکھتے اور طلاق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ میں طلاق دینا نہیں چاہتا،لیکن اب دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں۔ کیا میرے لیے دوسری شادی کرنا جائز ہے؟
اولاً سائل کوچاہیے کہ دونوں خاندانوں کے معززافرادکے ذریعے یہ معاملہ باہمی افہام وتفہیم سے سلجھانے کی کوشش کرے، اگربیوی کی شکایات جائز ہیں تو ان کاازالہ کرے اور اگر شکایات بے جاہیں اوراس کے باوجودوہ طلاق کامطالبہ کرتی ہے تواس کامطالبہ شرعادرست نہیں ہے،ایسی عورت کےلئے حدیث مبارک میں جنت سے محرومی کی وعیدسنائی گئی ہے ،سمجھانے کے باوجوداگربیوی اپنے مطالبہ پرمصررہے اورنباہ کی کوئی صورت نہ بنےتوسائل کوچاہیے کہ اسے طلاق دے کراپنے نکاح سے خارج کردے معاملہ کو لٹکانادرست نہیں ہے، باقی اگرسائل بیوی کوطلاق دیےبغیردوسری شادی کرناچاہتاہےتوجانناچاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو چار عورتیں نکاح میں رکھنے کی اجازت دی ہے بشرطیکہ بیویوں کے درمیان عدل وانصاف قائم رکھ سکتاہواورنان نفقہ پرقادرہو حقوق زوجیت اداکرسکتاہو، لہٰذا سائل کے لیے پہلی بیوی کو نکاح میں رکھ کر دوسری شادی کرنااس وقت شرعاً جائز ہوگاجب وہ عدل وانصاف اوربیویوں کے درمیان برابری کرسکتاہواورنان نفقہ پرقادرہو ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) صح (نكاح أربع من الحرائر والإماء فقط للحر) لا أكثر."
(کتاب النکاح،فصل فی المحرمات،ج:3،ص: 48،ط:سعید)
ردالمحتارمیں ہےـ:
"فهذا صريح في أنه مشروع ومحظور من جهتين وأنه لا منافاة في اجتماعهما لاختلاف الحيثية كالصلاة في الأرض المغصوبة، فكون الأصل فيه الحظر لم يزل بالكلية بل هو باق إلى الآن؛ بخلاف الحظر في النكاح فإنه من حيث كونه انتفاعا بجزء الآدمي المحترم واطلاعا على العورات قد زال للحاجة إلى التوالد وبقاء العالم. وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر، بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة كما قيل، بل هي أعم كما اختاره في الفتح، فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعا يبقى على أصله من الحظر، ولهذا قال تعالى {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} أي لا تطلبوا الفراق، وعليه حديث "أبغض الحلال إلى الله الطلاق."
(کتاب الطلاق،ج:3،ص: 228،ط:سعید)
الدرالمختارمیں ہے:
"وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ."
(کتاب الطلاق،ص:205،ط:دار الكتب العلمية)
سنن الترمذي میں ہے:
" حدثنا عبد الأعلى بن واصل الكوفي، قال: حدثنا محمد بن القاسم الأسدي، عن الفضل بن دلهم، عن الحسن، قال:سمعت أنس بن مالك، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة: رجل أم قوما وهم له كارهون، وامرأة باتت وزوجها عليها ساخط، ورجل سمع حي على الفلاح، ثم لم يجب.وفي الباب عن ابن عباس، وطلحة، وعبد الله بن عمرو، وأبي أمامة."
ترجمہ:"حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے تین قسم کے لوگوں پر لعنت فرمائی وہ شخص جوکسی قوم کاامام بنے اورلوگ اس سے ناراض ہوں اور وہ عورت جس نے رات اس حال میں گزارے کہ اس سے اس کا شوہر ناراض ہے اور وہ شخص جو حی علی الفلاح سنےاور جواب نہیں دے۔"
(أبواب الصلاة،باب ما جاء من أم قوما وهم له كارهون ج:1، ص:411،ط:دار الرسالة العالمية)
مصنف عبد الرزاق میں ہے:
"عبد الرزاق، عن معمر، عن أيوب، عن أبي قلابة يرفع الحديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال: "أيما امرأة سألت زوجها الطلاق من غير ما بأس لم تجد رائحة الجنة"، أو قال: "حرم الله عليها أن تجد رائحة الجنة"
ترجمہ: "نبی کریم ﷺسے مروی ہےکہ جو عورت بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گی یااللہ تعالیٰ نے اس پر جنت کی خوشبو کو حرام کر دیا ہے۔"
(کتاب الطلاق،باب المرأة تملك أمرها فردته هل تستحلف؟،ج:6،ص: 508، ط :دار التأصيل)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي."
(کتاب الطلاق ،الباب السادس عشر فی الحضانة،ج:1،ص:543،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
وفیہ ایضا:
"وإذا كانت له امرأة وأراد أن يتزوج عليها أخرى وخاف أن لا يعدل بينهما لا يسعه ذلك وإن كان لا يخاف وسعه ذلك والامتناع أولى ويؤجر بترك إدخال الغم عليها كذا في السراجية."
(کتاب النکاح،الباب الحادی عشر،ج:1،ص:341،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100116
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن